قربِ قیامت کا مسئلہ

ماہ نامہ الرسالہ کے پچھلے شماروں  میں  کچھ مضامین شائع ہوئے ہیں۔ یہ مضامین گلوبل وارمنگ (global warming) کے بارے میں  ہیں۔ گلوبل وارمنگ ایک نیا ظاہرہ (phenomenon) ہے۔ سائنسی مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے یہ الارمنگ صورتِ حال سامنے آئی ہے کہ زمین کے درجۂ حرارت میں  تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اِس کی وجہ سے زمین پر پہلی بار ایک خطرناک صورتِ حال پیش آرہی ہے، ایک ایسی صورتِ حال جو انسان جیسی مخلوق کے لیے زمین کو ناقابلِ رہائش (inhabitable) بنادے۔ سائنس دانوں  کا متفقہ طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال ناقابلِ تبدیلی (irreversible) ہے۔یہاں تک کہ سائنسی حلقوں  میں  اِس طرح کے الفاظ بولے جارہے ہیں  کہ— اب قیامت زیادہ دور نہیں:

Doomsday is not far

یہ بات جو سائنس کے حوالے سے الرسالہ میں  آئی ہے، وہ قرآن اور حدیث کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے۔ پچھلے مضامین میں  ہم، قرآن اور حدیث سے اِس قسم کے حوالے نقل کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بات قرآن اور حدیث میں چودہ سو سال پہلے کہی گئی تھی، وہ اب خود علمِ انسانی کے ذریعے ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ یہ بات بے حد سنجیدہ ہے۔ اِس کا تقاضا تھا کہ لوگوں  کے دل دہل اٹھیں۔ وہ اپنی توجہات کو دوسری چیزوں  سے ہٹا کر آخرت کی طرف لگادیں۔مگر عجیب بات ہے کہ کچھ افراد نے الرسالہ میں  چھپنے والی اِن باتوں  کا منفی اثر لیا۔ انھوں نے استہزا کے انداز میں  کہا کہ الرسالہ والے اب بے عقلی کی باتیں  کرنے لگے ہیں۔ ابھی کیسے قیامت آسکتی ہے۔ ابھی تو دجّال ظاہر نہیں  ہوا۔ ابھی تو مسیح آسمان سے نہیں  اترے، ابھی تو اللہ، اللہ کہنے والوں  کا دنیا سے خاتمہ نہیں  ہوا، وغیرہ۔

اس قسم کی باتیں  سر تاسر غیر متعلق باتیں  ہیں۔ لوگ جن چیزوں  کا انتظار کررہے ہیں، وہ کسی ہمالیائی اعلان کے ساتھ نہیں  آئیں  گی۔ وہ خدائی قانون کے مطابق، التباس (شبہہ) کے پردے میں  آئیں  گی۔ حتی کہ عین ممکن ہے کہ وہ چیزیں  جن کا لوگ انتظار کررہے ہیں، وہ عملاًپیش آچکی ہوں۔ عین ممکن ہے کہ قُربِ قیامت سے پہلے جو کچھ ہونے والا تھا، وہ ہوچکا ہو، مگر چوں  کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، ہمیشہ سچائی کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر(element of doubt) موجود رہتا ہے (الأنعام: 9) اِس لیے ظاہر ہونے کے باوجود لوگ اِن علامتی واقعات کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔ عین ممکن ہے کہ لوگ اِسی طرح خود ساختہ انتظار کے خول میں  پڑے رہیں  اور صورِ اسرافیل کی چنگھاڑ اچانک بلند ہو کر اُن کو یہ خبر دے کہ اب ان کے لیے انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ اب ان کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ صرف حسرت ہے، اور ابدی حسرت۔

سائنس دانوں  کے یہ بیانات بلاشبہہ قطعی مشاہدات اور قطعی حسابات (calculations) پر مبنی ہیں۔ اِن مشاہدات پر ان کی واقعیت کے اعتبار سے شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اِن بیانات کو اِسی طرح مستند (authentic) سمجھا جاتا ہے جس طرح زمین اور سورج اور چاند کے بارے میں  ان کے حسابات کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں  اس کے مقابلے میں  صحیح ردِ عمل یہ تھا کہ لوگ اپنے روایتی ماحول سے باہر آکر یہ سوچیں  کہ ایسا تو نہیں  کہ قرآن اور حدیث میں جس قیامت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، واقعتا وہ قریب آگئی ہو۔ ایسا تو نہیں  کہ قیامت سے پہلے جن علامتوں  کو ظاہر ہونا تھا، واقعتا وہ ظاہر ہوچکی ہوں، اور ہم اپنے خود ساختہ تصورات کی بنا پر اِس کو سمجھنے میں  ناکام ہورہے ہوں۔

لوگوں  کا حال یہ ہے کہ دوسرے تمام معاملات میں  سائنس کے مشاہدات کو وہ درست مانتے ہیں۔ مثلاً چاند گرہن (Lunar eclipse) اور سورج گرہن (Solar eclipse) کے بارے میں  سائنس دانوں  کی خبر پر کوئی شک نہیں  کرتا۔ اِسی طرح چاہیے کہ لوگ قربِ قیامت کے بارے میں  سائنس دانوں  کے مشاہدات پر بطور واقعہ شک نہ کریں۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سائنس دانوں  کے مشاہدات پر شک کرنے کے بجائے خود اپنے روایتی تصورات پر نظر ثانی کریں، وہ سوچیں  کہ جن علاماتِ قیامت کے بارے میں  وہ بطور خودکراماتی اور معجزاتی نوعیت کے تصورات قائم کئے ہوئے تھے، ہوسکتا ہے کہ اُن کے یہ مفروضہ تصورات بے اصل ہوں، اور ظاہر ہونے والی علامتیں  عام واقعات کی طرح اسبابِ عادی کے نقشے میں  ظاہر ہوچکی ہوں، اور ہم اپنے خود ساختہ روایتی تصور کی بناپر ان کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت خود اپنے ذہن پر نظر ثانی کرنے کا ہے، نہ کہ سائنس کے مشاہدات پر شک کرکے ان کو نظر انداز کرنے کا۔ اِن سائنسی مشاہدات پر بطور واقعہ شک نہیں  کیا جاسکتا۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اِن سائنسی مشاہدات کی روشنی میں  قرآن اور حدیث کی پیشین گوئیوں  پر ازسرِ نو غور کریں۔

قرآن میں  بتایا گیا ہے کہ بائبل کی پیشین گوئیوں  کے مطابق، یہود، پیغمبر آخر الزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے، مگر جب وہ آنے والا آیا تو وہ اس کے منکر بن گئے (البقرۃ: 89)۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں  نے بطور خود آنے والے کی ایک مفروضہ تصویر اپنے ذہن میں  بنارکھی تھی۔ چوں  کہ آنے والاان کی مفروضہ ذہنی تصویر پر بظاہر پورا نہیں  اترتا تھا، اس لئے انھوں  نے انتظار کے باوجود اس کا انکار کردیا۔ لوگوں  کو ڈرنا چاہیے کہ وہ دوبارہ یہود والی غلطی نہ کریں۔ اور اپنے خود ساختہ ذہن پر نظر ثانی کرکے معاملے پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔ کیوں  کہ اس طرح کے معاملے میں  غلطی ہمیشہ ناقابلِ تلافی ہوتی ہے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت سے پہلے صرف ایک ہی واقعہ اپنی برہنہ صورت میں  سامنے آئے گا، اور وہ فرشتہ اسرافیل کا صور پھونکنا ہے۔ اِس ایک واقعہ کے سوا تمام دوسرے علامتی واقعات، التباس کے پردہ میں  ظاہر ہوں  گے۔ ان کو پہچاننے کا معاملہ ایک آزمائش کا معاملہ ہوگا، نہ کہ صورِ اسرافیل کی طرح برہنہ اظہار کا معاملہ۔موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ امتحان کی دنیا میں  حقیقتیں  اپنی برہنہ صورت میں  سامنے نہیں آتیں۔ حقیقتوں  کا عیاناً سامنے آنا صرف اُس وقت ہوگا، جب کہ کشفِ ساق (القلم: 42) ہوجائے۔ یہی خدا کا تخلیقی منصوبہ ہے۔ اگر خدا کا منصوبہ یہ ہوتا کہ حقیقت کو عیاناً دکھادیا جائے، تاکہ اُس کو مان کر لوگ جنت میں  داخل کیے جائیں، اگر ایسا ہوتا تو خدا، انسان جیسی مخلوق کو پیدا کرکے اِس دنیا میں  آباد نہ کرتا۔ ایسی حالت میں  وہ صرف فرشتوں  کو پیدا کرتا، تاکہ وہ حقیقتوں  کو عیاناً دیکھیں  اور پھر اُن کی شہادت دے کر ابدی جنتوں  میں  داخل کردیے جائیں۔

حالیہ سائنسی تحقیقات کے حوالے سے الرسالہ میں  جو مضامین شائع ہوئے ہیں، ان کے خلاف منفی ردِّ عمل بلاشبہہ انتہائی حد تک غیر علمی بھی ہے اور غیر مومنانہ بھی۔ اِس کو واضح کرنے کے لیے ہم چند حوالے یہاں  نقل کرتے ہیں:

1 -قرآن کی سورہ نمبر 42 میں  دو آیتیں  آئی ہیں۔ اِن آیتوں  کا ترجمہ یہ ہے:

“اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری اور ترازو بھی۔ اور تم کو کیا خبر، شاید قیامت قریب ہو۔ جو لوگ قیامت کا یقین نہیں  رکھتے، وہ اس کی جلدی کررہے ہیں، اور جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، وہ اُس سے ڈرتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں  کہ وہ برحق ہے۔ یاد رکھو کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں  بحثیں  نکال رہے ہیں، وہ گم راہی میں  بہت دور نکل گئے ہیں ‘‘ (الشوریٰ: 17-18)۔

اِس آیت میں  بتایا گیا تھا کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ یہ آیت چودہ سوسال پہلے نازل ہوئی، مگر لمبی مدت گزرنے کے باوجود ابھی تک قیامت نہیں  آئی۔ اِس دوران کسی بھی عالم یا مفسر نے اِس آیت میں  دی جانے والی خبر پر شک کا اظہار نہیں  کیا، بلکہ وہ اس سے خوف کی غذا لیتے رہے، اور سچے مومن کی یہی پہچان ہے۔ اِس کے برعکس، جو لوگ قریب اور بعید کے نکتے نکال کر اس پر بحثیں  کریں، ان کو قرآن میں واضح طورپر گم راہ قرار دیاگیا ہے۔

2 -قرآن کی سورہ نمبر 21 میں  ایک آیت وارد ہوئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’لوگوں  کے لیے ان کا حساب نزدیک آپہنچا۔ اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض برت رہے ہیں ‘‘ (الأنبیاء:1)۔

اِس آیت کی تفسیر کے تحت، ایک صحابی کا واقعہ نقل کیا گیا ہے، جو اِس طرح ہے— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص اپنے گھر کی دیوار بنا رہا تھا۔ اُس دن جس دن کہ یہ سورہ نازل ہوئی، ایک اور صحابی کا وہاں  سے گزر ہوا۔ جو شخص دیوار بنا رہا تھا، اُس نے کہا: آج قرآن میں  کیا اترا۔ دوسرے صحابی نے جواب دیا کہ: اقترب للناس حسابہم وہم فی غفلۃ معرضون نازل ہوئی۔ یہ سن کر اُس صحابی نے تعمیر کا کام روک دیا، اور کہا کہ خدا کی قسم، اب میں  کبھی اِس دیوار کی تعمیر نہیں  کروں  گا، جب کہ حساب کا وقت قریب آگیا (واللہ لا بنیتُ أبداً وقد اقترب الحساب) القرطبی، جلد 11، صفحہ 266 (

صحابی ٔ رسول کا ذہن اگر وہ ہوتا، جو اِس معاملے میں  آج کل کے لوگوں  کا ذہن ہے، تو وہ اطمینان کے ساتھ اپنا گھر بناتے رہتے، اور یہ کہتے کہ ابھی تو قیامت بہت دور ہے۔ ابھی تو اس کی فلاں  فلاں  علامتیں  ظاہر نہیں  ہوئیں، پھر اِس سے پہلے قیامت کیسے آجائے گی۔

3 -صحابی ٔ رسول انس بن مالک کہتے ہیں  کہ:إن کانت الرّیح، فنبادر المسجد مخافۃ القیامۃ (سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب: الصلاۃ عند الظلمۃ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی، تو ہم (اصحابِ رسول) دوڑ کر مسجد میں  چلے جاتے تھے، اِس ڈر سے کہ کہیں  قیامت نہ آگئی ہو۔

اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول کا مزاج کیا تھا۔ اُن کا مزاج، قرآن کی اِس آیت سے بنا تھا: إنہم یرونہ بعیداً، ونراہ قریباً (المعارج: 6-7) یعنی لوگ قیامت کو دور سمجھتے ہیں، اور خدا اُس کو قریب دیکھ رہا ہے۔ اِسی طرح ان کی مزاج سازی اِس حدیث رسول سے ہوئی تھی، ألا، کلّ ما ہو اٰتٍ قریب (ابن ماجۃ، مقدمہ) یعنی آگاہ رہو کہ ہر وہ چیز جو آنے والی ہے، وہ بالکل قریب ہے۔

اصحابِ رسول کا مزاج اگر وہ ہوتا جو آج کل کے لوگوں  کا مزاج ہے، تو ’’آندھی‘‘ کو دیکھ کر وہ یہ کہتے کہ ابھی قیامت کہاں۔ ابھی تو وہ تمام نشانیاں  ظاہر نہیں  ہوئیں، جو قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی ہیں۔ مثلاً دجال کا ظاہر ہونا، مہدی کا پیداہونا، اور مسیح کا آسمان سے اترنا، وغیرہ۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ صحابہ، اسلام میں  ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس لیے یقین کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں  کا ذہن صحیح ذہن نہیں، کیوں  کہ وہ صحابہ کے ذہن کے خلاف ہے۔

مصر کے مشہور عالم محمد بن احمد ابو زہرہ (وفات: 1974) نے نزولِ مسیح کی روایت کے بارے میں  لکھا ہے کہ: أنَّہا أحادیث اٰحاد، ولیست متواترۃ، لم تشتہر قطّ إلاّ بعد القرون الثلاثۃ الأولیٰ (مجلّۃ: ’’لواء الإسلام‘‘ اپریل 1963، صفحہ 261؛ بحوالہ: ’’المسیحیّۃ‘‘ (1998)، صفحہ: 66، الدکتور أحمد شَلَبِی) یعنی یہ حدیثیں  روایاتِ آحاد پر مبنی ہیں، وہ متواتر روایتیں  نہیں۔ وہ صرف ابتدائی تین صدیوں  کے بعد لوگوں  کے درمیان پھیلیں۔

یہ بات بے حد اہم ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں  لوگوں  کو ان روایتوں  کی خبر ہی نہ تھی۔ اگر اُس زمانے کے لوگ اِن روایتوں  سے باخبر ہوتے، تو ضرور ایسا ہوتا کہ آج کے لوگ اِس معاملے میں  جس طرح کی بحثیں  نکال رہے ہیں، یہ بحثیں  دورِ اوّل ہی میں  ظاہر ہوچکی ہوتیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، صحابہ اور تابعین کثرت سے لوگوں  کو قربِ قیامت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ اگر اُس زمانے کے لوگ نزولِ مسیح جیسی روایتوں  سے باخبر ہوتے، تو صحابہ اور تابعین کے زمانے کے لوگ ضرور یہ کہتے کہ آپ جس قیامت کے قریب ہونے کی خبر دے رہے ہیں، وہ تو ابھی بہت دور ہے۔ کیوں  کہ اس کی علامتیں  ابھی تک ظاہر نہیں  ہوئیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قربِ قیامت کی جو علامتیں  حدیث کی کتابوں  میں  آئی ہیں، وہ بجائے خود درست ہیں۔ لیکن بعد کے زمانے میں  قصّاص (story tellers) نے اُس میں  پُر عجوبہ باتوں  کے اضافے کردیے۔ یہ اضافے چوں  کہ عربی زبان میں تھے، اِس لیے لوگ اُن کو اصل روایت کا حصہ سمجھنے لگے۔ اُس زمانے میں  کتابت کا رواج بہت کم تھا۔ زیادہ تر باتیں  زبانی طورپر دہرائی جاتی تھیں، اِس لیے یہ اضافے نہایت آسانی کے ساتھ روایات کا جز بن گئے۔

اِس معاملے میں  آخری بات یہ ہے کہ اِس قسم کی پیشین گوئی ہمیشہ تمثیل کی زبان میں ہوتی ہے، وہ تصریحات اور تعینات کی زبان میں نہیں  ہوتی۔ اور جو چیز تمثیل کی زبان میں  ہو، اس کو محض لفظی طور پر لے کر اس کا مطلب سمجھا نہیں  جاسکتا، بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کیا جائے، تاکہ سطور (lines) کے ماورا جو بین السطور (between the lines) ہے، اس کو سمجھا جاسکے۔ یہی معاملہ علامات قیامت کی روایات کا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دجال اور مسیح کی پیشین گوئیاں  تمثیل کی زبان میں  ہیں۔ جب تک اِس حقیقت کو ذہن میں  نہ رکھا جائے، اِن روایتوں  کو سمجھنا ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom