کامیاب زندگی، ناکام خاتمہ
ایک مغربی ملک کے ایک آدمی کو دولت کمانے کا شوق تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دولت کے ذریعے وہ زندگی کی تمام خوشیاں حاصل کرسکتا ہے۔ اُس نے کافی دولت کمائی۔ اس نے اپنے لیے ایک شان دار گھر بنایا۔ ہر طرح کی راحت اور عیش کے سامان اپنے گرد اکھٹا کیے، لیکن حقیقی خوشی اس کو حاصل نہ ہوسکی، یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوگیا۔ اس کی جسمانی طاقت ختم ہوگئی، وہ بستر پر پڑگیا۔ اپنی زندگی کے اِس آخری زمانے میں اُس نے اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Now, I am 90 plus, bedridden. My story can be sum up in these two words— successful life, unsuccessful end.
یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جن کو لوگ اچیور، یا سُپر اچیور کہتے ہیں۔ بڑی بڑی کامیابیوں والے اِس دنیا میں صرف چھوٹی خوشی حاصل کرتے ہیں اور آخر کارمایوسی کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا عام ہے کہ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
انڈیا میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں میں سے ایک مشہور نام لَتا منگیشکر کا ہے۔ وہ اب 80 سال کی ہوچکی ہیں۔ ان کو اپنی زندگی میں وہ تمام چیزیں ملیں جن کی لوگ حرص کرتے ہیں۔ دولت، شہرت، مقبولیت اور اعلیٰ خطابات، وغیرہ۔ انھوں نے عالمی سطح پر شاپنگ کی۔ بہت زیادہ جیولری اور جواہرات حاصل کیے۔ ہر وہ چیز اُن کے پاس ہے جس کی دنیا پرست لوگ تمنا کرتے ہیں۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر وہ محسوس کرتی ہیں کہ انھوں نے جو کچھ چاہا تھا، وہ اُن کو نہیں ملا۔
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (30 ستمبر 2007) میں لتا منگیشکر کا ایک انٹرویو چھپا ہے۔ انٹرویور کا نام سُدیشنا (Sudeshna Chatterjee) ہے۔ اِس انٹرویو کے مطابق، لتا منگیشکر تمام ظاہری کامیابیوں کے باوجود افسردگی کے احساس (dejected feeling) میں جیتی ہیں۔ یہ انٹرویو اخبارکے ضمیمہ (Times Life) میں اِس عنوان کے تحت چھپا ہے— میرے خواب کبھی پورے نہیں ہوئے:
‘My dreams have never got fulfilled’.
انٹرویو ر نے لتا منگیشکر سے پوچھا کہ اگر خدا اُن سے پوچھے کہ عمر کے اِس حصے میں پہنچ کر ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوگی۔ انھوں نے کسی وقفے کے بغیر فوراً جواب دیا کہ— میری صرف یہ خواہش ہوگی کہ میں اِس دنیا کو چھوڑ کر چلی جاؤں:
I would like to leave this world. (p. 3)
کامیاب انسانوں کی اِس ناکام کہانی میں ہر عورت اور مرد کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ جس پُر مسرت زندگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی ساری عمر لگا دیتے ہیں، وہ اِس دنیا میں سِرے سے قابلِ حصول(achievable) ہی نہیں۔
تمنّا کا ہونا، مگر تمنا کے حصول کا فُقدان ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے، وہ یہ کہ آدمی جس چیز کو قبل از موت (pre-death period) دنیا میں پانا چاہتا ہے، اس کو خالقِ کائنات نے بعداز موت (post-death period) دنیا میں رکھ دیا ہے۔
ایسی حالت میں سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بعد از موت دنیا میں کامیابی کا مستحق بنائے۔ وہ موجودہ عارضی زندگی کو بعد کی ابدی زندگی کی تیاری میں لگا دے۔
انسان پیدائشی طورپر معیار پسند (idealist) ہے، لیکن موجودہ دنیا میں ہر چیز معیار سے کم (less than ideal) حالت میں پائی جاتی ہے۔ یہی لوگوں کے ٹنشن (tension) کا اصل سبب ہے۔ انسان اپنی پوری توانائی صرف کرکے جو کچھ حاصل کرتا ہے، وہ ہمیشہ اس کے اپنے مطلوب معیار سے کم ہوتا ہے۔
طلب اور مطلوب کے درمیان اِس فرق کو جاننا ہی سب سے بڑی دانش مندی ہے۔ جو آدمی اِس فرق کو جانے، وہ اپنے عمل کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرے گا، اور پھر کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ ایسا انسان کبھی ٹنشن میں جینے ولا انسان نہیں ہوگا۔