خبر نامہ اسلامی مرکز— 186
1 28 -فروری 2008 کو 24 افراد پر مشتمل ایک وفد اسلامی مرکز میں آیا۔ اس نے ’’اسلام اور صوفی ازم‘‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا خطاب سنا۔ اس وفد کے ذمے دار کاایک تاثراتی خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Dear Maulana Wahiduddin Khan!
The group were so blest to have heard your speach and I know the African brothers would love to have you with them in their country. Your presence and your lived peace “spoke” louder than your words to them. Thank you and your lovely family for such hospitality. Truly the group have left with a whole new concept of 'Islam' and with a big question: “Why no one else can grasp the message as you did”. With our thanks and very warm regards and hope for your continued sharing,. (Gloria Bunett, America, March 13, 2008)
2 -سرودھرم سنسد (Parliament of Religions) کا پہلا کنونشن 29 مارچ 2008 کو ہوا۔ اس کی کارروائی نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشنل کلب میں انجام پائی۔ یہ کنونشن ہر قسم کے سماجی بھید بھاؤ (discrimination) کے خلاف تھا، خواہ وہ جس بنیاد پر بھی ہو۔ اِس کنونشن میں سوامی اگنی ویش، فادر تھمپواور دوسرے مذہبی رہ نما شریک ہوئے۔ اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے اِس کنونشن کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کو دعوت نامہ ملا تھا، لیکن وہ کسی وجہ سے ذاتی طورپر اس میں شریک نہ ہوسکے۔ تاہم کنونشن کے ذمہ داروں کی درخواست پر صدر اسلامی مرکز نے ایک تحریر ان کو بھیج دی، جو کہ کنونشن کے موقع پر وہاں پیش کی گئی۔
3 30 -مارچ 2008 کو انگلینڈ کے دو اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان اسلامی مرکز میں آئے۔ ان کے نام یہ ہیں:
Sir Mark Tully
Dr. Richard Cheetham
(Bishop of Kingston, U.K.)
اِن لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اسلام کے مختلف موضوعات پر تفصیل کے ساتھ گفتگوکی۔ مثلاً یہ کہ مسلمان اِس وقت جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا اسلام کے مطابق کیاحل ہے۔ جدید بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بہتر تعلق قائم کرنے کے لیے اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ ہمارا مشن مسلمانوں کے لیے اور غیرمسلموں کے لیے کیا کام کررہا ہے۔ تمام سوالات کا جواب تفصیل کے ساتھ دیاگیا۔ ان لوگوں نے آخر میں اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ملاقات ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔
4 -این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 2 اپریل 2008 کو اپنے ایک پروگرام کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈکیا۔ انٹرویور کا سوال یہ تھا کہ اسلام میں ری برتھ (re-birth) یا ری انکارنیشن (reincarnation) کا تصور کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کے تصور کے مطابق، برتھ اور ری برتھ دونوں ایک ایک بار ہیں۔ موت کے بعد آدمی اگلی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں واپس نہیں آتا۔ موت کے بعد کی دنیا میں آدمی کے عمل کے مطابق، اس کے انعام یا اس کی سزا کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سوال وجواب انگریزی زبان میں تھا۔
5 -سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ کی طرف سے 5 اپریل 2008 کو انڈیاانٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں ہندواور مسلمان دونوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔ اِس کا عنوان یہ تھا:
The Message of the Prophet Muhammad.
ایک گھنٹے کی تقریر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی پیغام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ مثلاًتوحید، عالمی اخوت، امن اور انسانی ہمدردی، وغیرہ۔ لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔ اِس موقع پر تمام آنے والوں کو اسلامی لٹریچر بھی دیا گیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔
6 -محترم المقام مولانا وحید الدین خاں صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ امید کہ مزاج گرامی ہر طرح بخیر و خوبی ہوں گے۔ ’’الرسالہ‘‘ ہر ماہ نظر نواز ہوتا ہے، خرید کر پڑھتا ہوں۔ آپ کی تحریروں نے مجھے ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ مجھ ٹوٹے ہوئے انسان کو بنانے، سنبھالنے اور سنوارنے میں، بلکہ مجھ میں ایک نیا انسان پید کرنے میں آپ کے توانا قلم کا غیر معمولی رول رہا ہے۔ ان حقائق کا اظہار میں نے آپ کی خدمت میں پہلے بھی کیا ہے، آج بھی کررہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ جامعہ دار السلام عمر آباد سے ایک ماہ نامہ گزشتہ 17 سال سے شائع ہورہا ہے۔ ہر سال کسی خاص موضوع پر اس کے خصوصی شمارے نکلتے ہیں۔ امسال ستمبر (2007)میں اس کا خصوصی شمارہ بعنوان ’’مسلمانوں کے مسائل، امراض او ران کا علاج‘‘ طے ہے۔ میرا احساس ہے کہ کسی مرض کے ازالے کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں: (1) مرض کی صحیح تشخیص (2) دواؤں کی صحیح تجویز۔ یہ خوبی آپ کے علاوہ میں نے دوسروں میں نہیں پائی ہے۔ خصوصی شمارے کے لیے تجویز کردہ درج ذیل عناوین بھی آپ کی تحریروں کی دین ہیں:
(1) مسلمانوں میں حقیقت پسندی کا فقدان (2) مسلمانوں میں پروفیشنل ازم کا فقدان
(3) مسلمانوں میں دور اندیشی اور منصوبہ بندی کا فقدان (4) مسلمانوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان
(5) مسلمانوں میں جذباتیت کا مسئلہ
ہماری دلی خواہش اور عاجزانہ گزارش ہے کہ مذکورہ بالا عناوین میں سے کسی ایک دوموضوعات پر آپ کی قیمتی تحریریں خصوصی شمارے کی زینت بنیں۔ امید کہ مایوس نہیں فرمائیں گے۔ آپ کے ’’جوابِ باصواب‘‘ کا انتظار رہے گا (مولانا محمد رفیع کلوری عمری، نائب مدیر ماہ نامہ ’’راہِ اعتدال‘‘ جامعہ دار السلام،عمر آباد، یکم جولائی2007۔