محبت اور نفرت
ایک مغربی مصنف لینس آرم اسٹرانگ (Lance Armstrong) کی ایک کتاب چھپی ہے۔ یہ کتاب اسپورٹس اور اس کے شائقین کے بارے میں ہے۔ اِس کتاب کا فرانسیسی نام یہ ہے:
Tour de France.
کتاب کے مصنف نے بتایا ہے کہ اسپورٹس کے شائقین کی یہ نفسیات ہے کہ وہ اپنی قوم کے جیتنے والوں سے جذباتی طورپر محبت کرتے ہیں، اور اگر وہ ہار جائیں تو اسی شدت کے ساتھ وہ اُن سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ— عوام یا تو آپ سے محبت کرتے ہیں یا آپ سے نفرت۔ اِس معاملے میں ان کے یہاں کوئی درمیانی حالت نہیں:
Either the public loves you or hates you. There is no such thing as a happy middle ground.
عوامی نفسیات کے بارے میں یہ بیان بالکل درست ہے۔ عام لوگ محبت اور نفرت دونوں کے معاملے میں سخت جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک تباہ کن عادت ہے۔ صحیح یہ ہے کہ محبت اور نفرت کو عقل کے تابع کیاجائے، نہ کہ جذبات کے تابع۔
حدیث میں آیا ہے کہ دوستی کرو تو اعتدال کے ساتھ کرو، شاید تمھارا دوست کبھی تمھارا دشمن بن جائے۔ اور دشمنی کرو تو اعتدال کے ساتھ کرو، شاید تمھارا دشمن کبھی تمھارا دوست بن جائے (أحبب حبیبک ہونًا ما، عسیٰ أن یکون بغیضک یوماً ما۔ وأبغض بغیضک ہونا ما، عسیٰ أن یکون حبیبک یوماً ما) الترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب۔
یہ ایک نہایت حکیمانہ ہدایت ہے۔ دنیا میں دوستی اور دشمنی دونوں عارضی چیزیں ہیں۔ اِس معاملے میں ضروری ہے کہ آدمی اعتدال پسندی کا رویہ اختیا رکرے، نہ کہ انتہا پسندی کا رویہ۔ اعتدال پسندی کا رویہ ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، اور انتہا پسندی کا رویہ ہمیشہ مہلک نتیجے کا سبب بنتا ہے۔