امتِ وسَط
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ایک آیت ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وکذٰلک جعلناکم أمّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس، ویکون الرّسول علیکم شہیداً (البقرۃ:143) یعنی اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنادیا، تاکہ تم گواہ بنو لوگوں کے اوپر، اور رسول گواہ بنے تمھارے اوپر۔
وسَط کے لفظی معنٰی ہیں— بیچ، دو طرفوں کے درمیان(بین طرفی الشییٔ)۔ امتِ وسط کا مطلب ہے— بیچ کی امت(middle community)۔ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں مسلمانوں کی داعیانہ حیثیت کا ذکر ہے۔ خدا کا دین اُن کو خدا کے رسول کے ذریعے ملا ہے۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ اِس دین کو ہر دور اور ہر نسل میں پہنچاتے رہیں۔ اِس آیت میں شہید (گواہ) سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں داعی کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کی یہ ذمے داری تھی کہ جس سچائی کو اُس نے خداکے پیغمبر کے ذریعے پایا ہے، اُس سچائی کو وہ دوسرے انسانوں تک پہنچائے۔ قدیم اہلِ کتاب کی بھی یہی ذمے داری تھی، جس کو قرآن میں تبیین (آلِ عمران: 187) کہاگیا ہے۔
یہ تبیین، یا دعوت، یا شہادت نہ کوئی پُراسرار (mysterious) چیز ہے، اور نہ وہ کوئی فضیلت کی چیز ہے۔ یہ صرف ایک دعوتی ذمے داری ہے، اور بلا شبہہ دعوتی ذمے داری سے زیادہ بڑی ذمے داری اور کوئی نہیں۔ امتِ محمدی سے یہ دعوتی ذمے داری مزید اضافے کے ساتھ مطلوب ہے۔ کیوں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت آخری پیغمبر کی تھی۔ آپ کے بعد اب کوئی، اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ اِس لیے امتِ محمدی کی ہر نسل کو قیامت تک ہر دور میں اپنے معاصرین کے درمیان اِس دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا ہے۔ یہ ہر مسلم فرد کی ذمے داری ہے جس کو اُسے ترجیح (priority) کی بنیاد پر انجام دینا ہے۔ اِس دعوتی کام کا معیار یہ ہے کہ وہ قولِ بلیغ (النساء: 63) کی زبان میں ادا کی جائے، یعنی ایسا قول جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔