ابدی انجام
موجودہ دنیا میں ہر آدمی غلطیاں کرتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ ہر غلطی کے بعد ایسے حالات پیداہوئے کہ اس نے اپنی غلطی کو درست کرلیا اور غلطی کرنے کے باوجود وہ غلطی کے بُرے انجام سے بچ گیا۔یہ واقعہ ہر آدمی کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ ہر آدمی اِس کو اپنی زندگی میں، یا دوسروں کی زندگی میں روزانہ دیکھتا ہے۔
اِس عمومی تجربے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی غلطی کو ایک قابلِ تلافی خطا (compensating error) سمجھ لیتا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ حتمی معنوں میں غلطی کوئی مہلک (fatal) چیز نہیں۔ غلطی وقتی طورپر ضرور نقصان پہنچاتی ہے، لیکن جلد ہی کسی نہ کسی طورپر غلطی کی تلافی ہوجاتی ہے، اور پھر زندگی اپنے معمول پر آجاتی ہے۔
اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان آخرت کے معاملے کو بھی دنیا کے معاملے پر قیاس کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ غلطی کے انجام کے معاملے میں جو کچھ دنیا میں پیش آرہا ہے، وہی آخرت میں بھی پیش آئے گا۔ اِسی نفسیات کا یہ نتیجہ تھا کہ کچھ لوگوں نے آخرت کو مانتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ: لن تمسّنا النّار إلاّ أیّاماً معدودۃ (البقرۃ: 80)-
یہ صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے لیے سخت آزمائش ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور رمرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ کھلے ذہن کے تحت سوچے اور آخرت کی پکڑ کے معاملے کو اُس کی اصل نوعیت کے اعتبار سے دریافت کرے۔ ہر عورت اور مرد کو یہ جاننا چاہیے کہ آخرت کا معاملہ دنیا کے معاملے سے بالکل مختلف ہے۔ موت کے بعد ہر ایک کو ایک ایسی ابدی دنیا میں داخل ہونا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی، جہاں ہر آدمی اکیلا ہوگا، جہاں تلافی ٔ مافات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہر آدمی کو بہر حال اپنے عمل کے انجام کو بھگتنا ہے۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو یا تو ابدی جنت میں پائے گا، یا ابدی جہنم میں۔