ہیمرنگکی زبان

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کے ابتدائی تیرہ سال تک مکہ میں  رہے، اس کے بعد آپ مدینہ چلے گئے اور آخر وقت تک وہیں  رہے۔ پہلے دور کو مکی دور کہاجاتا ہے اور دوسرے دور کو مدنی دور۔ قرآن کی سورہ نمبر 109 (الکافرون) کا آغاز اِن الفاظ سے ہوا تھا: قل یاأیّہا الکافرون (کہوکہ اے کافرو)۔ اِس خطاب کے بعد سورہ میں  فرمایا گیا تھا کہ: ولا أنتم عابدون ما أعبد (تم اس کی عبادت نہیں  کرنے والے ہو جس کی عبادت میں  کرتاہوں)۔

مذکورہ خطاب ثابت شدہ طورپر قدیم اہلِ مکہ سے تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس کے تقریباً آٹھ سال بعد مکہ فتح ہوا، اور مکہ کے تمام لوگوں  نے اسلام قبول کرلیا۔ یہی واقعہ ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر 110 میں اِن الفاظ میں  بیان کیاگیا: إذا جاء نصر اللہ والفتح، ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ أفواجاً (النّصر: 1-2)یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے، اور تم دیکھو کہ لوگ، فوج در فوج، خدا کے دین میں  داخل ہورہے ہیں۔

یہاں  یہ سوال ہے کہ جب مکہ کے تمام لوگ آئندہ مومن اور مسلم بننے والے تھے تو ان کو ’’کافر‘‘ کے لفظ سے کیوں  خطاب کیاگیا، اور کیوں  یہ کہاگیا کہ تم لوگ خدا کی عبادت کرنے والے لوگ نہیں  ہو، حالاں  کہ خدائے عالم الغیب کو اِس ہونے والے واقعے کا پورا علم تھا۔

اِس فرق کا سبب یہ تھا کہ یہاں  قانون کی زبان استعمال نہیں  کی گئی ہے، بلکہ ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) استعمال کی گئی ہے۔ ہیمرنگ کی زبان قانون اور منطق کی زبان نہیں  ہوتی۔ اُس میں  شدتِ کلام کااسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم نے پیغمبر کی بات نہیں  مانی، تو خدا کی نظر میں  تم ’’کافر‘‘ قرار پاؤ گے اور آخر کار جہنم کے مستحق ٹھہروگے۔ گویا کہ تشدید کی زبان میں  یہ ایمان کی دعوت تھی، نہ کہ ان کے کفر کا اعلان۔اگر یہ ان کے کفر کا اعلان ہوتا، تو فتحِ مکہ کے بعد وہ تمام لوگ جوق درجوق خدا کے دین میں  داخل نہیں  ہوسکتے تھے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom