شر میں خیر
قرآن کی سورہ نمبر 24 کی ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: لا تحسبوہ شراًّ لکم بل ہو خیرٌ لکم (النّور:11) یعنی تم اس کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمھارے حق میں بہتر ہے:
Do not regard it a bad thing for you; may be it is good for you.
یہ آیت قرآن میں ایک مخصوص سیاق(particular reference) میں آئی ہے، لیکن اس کا ایک عمومی مفہوم (general application) بھی ہے، اِس عمومی مفہوم کے اعتبار سے اِس آیت میں ہر انسان کے لیے سبق ہے۔ ہر انسان غور کرکے اُس سے اپنی زندگی کے لیے سبق لے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فطرت کا ایک عام قانون بتایا گیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ اِس دنیا میں کسی کے ساتھ کوئی منفی واقعہ پیش آئے، تو وہ اس کے لیے کُلّی طورپر بُرا نہیں ہوتا۔ یہ دراصل آدمی کا اپنا رویہ ہے جو کسی واقعے کو اُس کے لیے برا واقعہ بنا دیتا ہے۔
جب کوئی منفی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آئے تووہ اس کے صبر کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔اگر آدمی صبر سے کام لے، وہ جوابی نفسیات کا شکار نہ ہو، بلکہ اپنے ذہن کو اشتعال سے بچاتے ہوئے معاملے کا بے لاگ جائزہ لے، اور غیر متاثر ذہن کے ساتھ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ اگر وہ ایسا کرسکے، تو وہ دیکھے گا کہ جو چیز بظاہر اس کے لیے بُری تھی، وہ اس کے لیے اچھے نتیجے کا سبب بن گئی۔
فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی بھی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ آپ کا اپنا رد عمل ہے جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اپنے آپ کو درست راستے پر رکھیے، اور پھر کوئی بھی چیز یا کوئی بھی شخص آپ کے لیے نقصان کا باعث نہیں بنے گا۔موجودہ دنیا ناموافق تجربات سے بھری ہوئی ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے پھول کی ایک شاخ کانٹوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی، ناموافق بات کو نظر انداز کرے، اور موافق پہلو کو تلاش کرکے اس کو استعمال کرے۔ یہی طریقہ فطرت کے مطابق ہے، اور یہی طریقہ کسی شخص کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے۔