حِلفُ الفُضول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تقریبا بیس سال پہلے مکہ میں ایک واقعہ ہوا۔ یمن سے ایک شخص مکہ آیا۔ اُس نے اپنا کچھ تجارتی سامان مکہ کے ایک شخص عاص بن وائل سہمی کے ہاتھ فروخت کیا۔ عاص بن وائل نے سامان لیا، لیکن اس کی پوری قیمت ادا نہ کی۔
یہ واقعہ مکہ کی روایات (traditions) کے خلاف تھا۔ جب مکہ والوں کو اِس کا علم ہوا، تو لوگوں نے اس کو بہت بُرا مانا۔ مکہ کے کچھ سربرآوردہ افراد عبد اللہ بن جُدعان کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ انھوں نے اِس واقعے پر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ پھر انھوں نے ایک معاہدہ کیا۔ اِس معاہدے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے۔ اس معاہدے کو تاریخ میں حلف الفضول کہاجاتا ہے۔ اِس معاہدے کے متعلق، روایات میں بتایا گیا ہے کہ: فتعاقدوا وتعاہدوا باللہ لیکونُنَّ یداً واحدۃً مع المظلوم علی الظالم حتّٰی یؤدّی إلیہ حقہ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد 1، صفحہ 259)یعنی انھوں نے خداکا نام لے کر ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ متحد ہو کر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے اور حق دار کو اس کا حق دلوائیں گے۔
یہ معاہدہ موجودہ اصطلاح کے مطابق، سوشل سروس، یا خدمتِ خَلق کا معاہدہ نہ تھا، بلکہ وہ دادرسی اور نصرتِ مظلوم کا معاہدہ تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ میں ظلم اور حق تلفی کے کسی معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوگا، تو مکہ کے سربرآوردہ افراد موقع پر پہنچیں گے اور ظالم کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے، وہ غاصب کو مجبور کریں گے کہ وہ غصب کا مال اُس کے مغصوب کے حوالے کرے۔
حلف الفضول سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں داد رسی کی اسپرٹ ہونا چاہیے۔ لوگوں کے اندر یہ طاقت ور جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی بے انصافی کو برداشت نہ کریں، اور عملاً اُس میں دخل دے کر پُر امن دباؤ کے ذریعے اس کا خاتمہ کر دیں۔