زندہ قوم، زوال یافتہ قوم

زندہ قوم وہ ہے جس کے اندر فطری اوصاف پائے جائیں۔ اور زوال یافتہ قوم وہ ہے جس کے افراد کے اندر دھیرے دھیرے فطری اوصاف ختم ہوجائیں۔ فطری اوصاف سے مراد ہے سچائی، دیانت داری، اصول پسندی، واقعہ کا اعتراف، اور کھلاپن (openness)،وغیرہ۔ اس کے برعکس، جب قوم پر زوال آتا ہے تو اس کے اندر جھوٹ بولنا عام ہوجاتا ہے، اس کے افراد اصول پسند کے بجائے مفاد پرست بن جاتے ہیں۔ زوال یافتہ قوم کے افراد حساسیت سے محروم ہوجاتے ہیں، اور جو لوگ حساسیت سے محروم ہوجائیں، ان کے اندر حق و باطل کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ایسے افراد تنگ نظری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

زندہ فرد قابلِ پیشین گوئی کیرکٹر (predictable character) کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، زوال یافتہ قوم کے افراد اس قسم کے کردار سے خالی ہوجاتے ہیں۔ زندہ انسان ہرے بھرے درخت کی مانند ہے، اور غیر زندہ انسان سوکھے درخت کی مانند۔ زندہ درخت ہمیشہ گرو (grow) کرتا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کو پھول اور پھل اور سایہ جیسی چیزیں دیتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس، سوکھا درخت ان میں سے کوئی چیز دوسروں کو نہیں دیتا۔ وہ ایک ایسا درخت ہے جو دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ یہی حال زندہ انسان اور غیر زندہ انسان کا ہے۔

زندہ انسان دوسرے انسانوں کے لیے ایک سرمایہ (asset) ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر زندہ انسان ایک ایسا انسان ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے ایک بوجھ (liability) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے دوسرے انسانوں کو کچھ نہیں ملتا۔وہ اپنے گھر والوں کے لیے مسئلہ ہے ،اور اپنے سماج کے لیے مسئلہ ہے۔زندہ انسان اپنے سماج کے لیے دینے والا ممبر(giver member) ہوتا ہے۔ اور غیر زندہ انسان وہ ہے جو اپنے سماج کے لیے صرف لینے والا ممبر(taker member) بن جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom