خواص کی ذمہ داری

ایک حدیثِ رسول میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:من سن سنة حسنة فعمل بہا، کان لہ أجرہا ومثل أجر من عمل بہا، لا ینقص من أجورہم شیئا، ومن سن سنة سیئة فعمل بہا، کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا، لا ینقص من أوزارہم شیئ (ابن ماجہ، حدیث نمبر 203)یعنی جس شخص نے ایک اچھی سنت قائم کی پھر اس نے اس پر عمل کیا، تو اس کو اپنے عمل کا اجر ملےگا، اوراس کے برابر بھی جس نے اس طریقے پر عمل کیا، بغیر اس کے کہ دوسرے عمل کرنے والےکے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جس نے ایک بری سنت قائم کی اور اس پر عمل کیا، تواس پر اس کا بوجھ ہوگا، اور ان لوگوںکا بوجھ بھی جنھوں نے اس کے طریقے پر عمل کیا، بعد والوں کے بوجھ میں کسی کمی کے بغیر۔

اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عام لوگوں کی نسبت سے نہیں ہے بلکہ خواص کی نسبت سے ہے۔ یعنی ایسے اشخاص کی نسبت سے جو لوگوں کے لیے قابل تقلید بن جائیں، اور بعد کے لوگ ان کے نمونے کی پیروی کریں۔ آج کل کی زبان میں ایسے افراد کو ٹرینڈ سیٹر (trendsetter) کہا جاسکتا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہےکہ کسی گروہ کے خواص کی ذمے داری بہت زیادہ ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ کوئی کام کرنے سے پہلے بہت زیادہ سوچیں۔ کیوں کہ وہ جس کام کو کریں گے، دوسرے لوگ خود بھی ویسے ہی کرنے لگیں گے۔ یہاں تک کہ وہ رواج بڑھتا رہے گا، اور یہ ناممکن ہوجائے گا کہ لوگوں کو اس سے روکا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواص کی ذمے داری عوام کی ذمے داری سے بہت زیادہ ہے۔ہر سماج میں ایسا ہوتا ہے کہ کچھ افراد کو خواص کا درجہ مل جاتا ہے۔ جن کی تقلید دوسرے لوگ کریں۔ ایسے لوگوں کو اپنے عمل کے معاملے میں بےحد محتاط ہونا چاہیے۔اس معاملے میں کوئی عذر ان کے لیے عذر نہیں بن سکتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom