اعترافِ حقیقت
شاہ فاروق مصرکی علوی سلطنت کے بادشاہ تھے۔ آخری زمانے میں ان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی۔ 1952میں ان کو تخت سے محروم کرکے اٹلی بھیج دیا گیا۔ جہاں 1965 میں ان کی وفات ہوئی۔ جب ان کی بادشاہت ان سے چھن گئی تو اس وقت انھوں نے ملک چھوڑتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اب دنیا سے بادشاہت کا دور ختم ہوگیا، آئندہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ ہوں گے— چار تاش کا اور ایک برطانیہ کا:
‘The whole world is in revolt, soon there will be only five kings left: the king of spades, the king of clubs, the king of hearts, the king of diamonds, and the king of England.’
شاہ فاروق کی تخت سے معزولی کو عام طور پر فوجی انقلاب (military coup) کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ عالمی سیاسی انقلاب کا نتیجہ تھا۔ بیسویں صدی عیسوی میں جمہوری انقلاب آیا۔ اس کے بعد شخصی بادشاہت کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ شاہ فاروق عربی زبان کے علاوہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ انھوں نے دورِ حاضر کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ تاریخ کے بارے میںاپنے مطالعہ کے ذریعے جان چکے تھے کہ اب شخصی بادشاہت کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اس واقفیت کی بنا پر انھوں نے اپنی معزولی کو ایک ہونے والا واقعہ سمجھا۔ اس لیے انھوں نے اس کو ایک حقیقت کے طور پر مان لیا۔ اس اعترافِ حقیقت کی بنا پر وہ منفی نفسیات کا شکار ہونے سے بچ گیے۔ انھوں نے اپنی بقیہ عمر جلاوطنی میںپرسکون طور پر گزاری۔
یہی زندگی کا راز ہے۔ زندگی میں آخری طور پر جو چیز باقی رہتی ہے، وہ ہماری آرزوئیں اور خواہشیں نہیں ہیں بلکہ فطرت کا قانون ہے۔ یہ قانون ہر فرد اور گروہ پر یکساں طور پر نافذ ہوتا ہے۔ اگر انسان اس حقیقت کو جان لے تو وہ غصہ اور شکایت اور احتجاج اور تشدد سے اپنے آپ کو بچالے۔