بڑا اجر
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن اللہ إذا أحب قوما ابتلاہم، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فلہ السخط (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2396 :) یعنی بے شک بڑا اجر بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اور اللہ جن لوگوں سے محبت کرتا ہے، ان کو وہ آزمائش میں ڈال دیتا ہے، تو جو راضی ہوگیا، اس کے لیے رضا مندی ہے، اور جو ناراض ہوگیا، اس کے لیے ناراضگی ہے۔ اس حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش ایمانی ترقی کا زینہ ہے۔ آزمائش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں ایک ہل چل پیدا ہوتی، اس کی چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگتی ہیں، اس کو طرح طرح کے شاک (shock)کا تجربہ ہوتا ہے۔
ان ناخوشگوار تجربات کے دوران جو آدمی منفی نفسیات میں مبتلا ہوجائے،جو نفرت اور غصہ کا شکار ہوجائے، جو شکایت اور جھنجھلاہٹ میں جینے لگے، وہ آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ ایسے انسان کو آزمائش سے کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، جو انسان ذہنی بیداری کے ساتھ جیتا ہو، وہ آزمائش میں اعتدال پر قائم رہے گا،ناخوشگوار تجربہ کے باوجود وہ اپنی مثبت سوچ (positive thinking) کو باقی رکھے گا۔ یہی وہ انسان ہے جس نے آزمائش سے خیر کی غذا حاصل کی۔
آزمائش بظاہر کسی نہ کسی مصیبت کی شکل میں آتی ہے۔جو لوگ مصیبت سے گھبرا اٹھیں، ان کو آزمائش سے شکایت اور مایوسی کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، لیکن جو لوگ آزمائش کو اللہ کے منصوبے کا جزء سمجھیں، وہ آزمائش کا استقبال مثبت ذہن کے ساتھ کریں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آزمائش، ان کے اجر میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔
اللہ کے یہاں انعامات کی کمی نہیں۔ لیکن کسی کو اللہ کا بڑا انعام ہمیشہ اس وقت ملتا ہے، جب کہ وہ اس کے لیے بڑا استحقاق پیدا کرے۔ بڑے استحقاق کا خلاصہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت سوچ پر قائم رکھے۔ کوئی بھی واقعہ اس کی مثبت سوچ کو برہم کرنے والا نہ بنے۔