قرآن فہمی

قرآن کو سمجھنے کے لیے مفسرین نے مختلف علوم کا ذکر کیا ہے، یہ درست ہے۔ لیکن قرآن کو سمجھنے کا ایک اور ذریعہ ہے، جو بلاشبہ سب سے زیادہ اہم ہے، اور وہ تقو ی ہے۔ یہ بات قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ (2:282)یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دیتا ہے۔ تقوی آدمی کو اللہ سے قریب کرتا ہے۔

تقوی آدمی کے اندر یہ مزاج بناتا ہے کہ وہ ہر چیز کے لیے اللہ سے مدد کا طالب بنے۔ اللہ سے مدد کا طالب ہونا، بیک وقت دعا بھی ہے اور عبادت بھی۔ ایسی دعا سے قرآن فہمی میں بھی مدد ملتی ہے، اور اس کے ذریعے عبادت کا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔

قرآن فہمی کے لیے اللہ سے مدد کی دعا کرنا، بے حد اہم ہے۔یہ گویا کتاب کو سمجھنے کے لیے خود کتاب کے مصنف سے کنسلٹ (consult)کرنا ہے۔ یہ صرف قرآن کی صفت ہے کہ اس کا مصنف ہر لمحہ اور ہر مقام پر کنسلٹ کرنے کے لیے موجود ہے۔ اللہ کی طرف سے ہدایت بلاشبہ ہر انسان کے لیے آتی ہےلیکن یہ ہدایت لفظوں کی صورت میں نہیں آتی، بلکہ وہ انسپریشن (inspiration) کی صورت میں آتی ہے۔

قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ آسمانوں کو الہام (41:12) کرتا ہے، اللہ شہد کی مکھیوں کو الہام(16:68) کرتا ہے، اللہ عام انسانوں کو بھی الہام (8:91) کرتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اللہ اس انسان کی مدد کرے جو اس سے قرآن فہمی کے لیے دعا مانگ رہا ہے۔

امام ابن تیمیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قرآن کی کوئی آیت ان کو مشکل نظر آتی تو وہ اللہ سے یہ دعا کرتے: یا معلم ابراہیم علمنی ( إعلام الموقعین عن رب العالمین، لابن قیم، جلد 4، صفحہ 198) یعنی اے ابراہیم کو تعلیم دینے والے میری تعلیم فرما۔ قرآن میں ابراہیم کو تعلیم دینے کا ذکر معنی ًسورہ الانبیاء آیت نمبر51 میں آیا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom