رب العالمین کا عطیہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔اس کے بعد وہ وقت آیا، جب کہ مکہ کے سرداروں نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر یہاں سے چلے جائیں۔ اس وقت پیغمبر اسلام نے اپنے اصحابِ سے فرمایا:أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، او ر وہ مدینہ ہے۔
اس روایت میں جو بات کہی گئی ہے اس کا تعلق فضیلتِ رسول یا فضیلتِ مدینہ سے نہیں ہے بلکہ اس میں ایک عام سنت الٰہی کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جب کسی انسان کے ساتھ یک طرفہ طور پرظلم کا معاملہ کیا جائے، یا اس سے کوئی چیز ناحق چھین لی جائے تو ایسا شخص اللہ کی نصرتِ خاص کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اللہ ایسے بندے کو اپنی طرف سے اس سے بہت زیادہ دے دیتا ہے جو انسانوں نے اس سے ناحق طور پرچھینا تھا۔
اللہ کا یہ خصوصی عطیہ اس انسان کو ملتا ہے جو اس عطیے کا استحقاق پیدا کرے۔ وہ استحقاق یہ ہے کہ ایسے موقعے پر وہ آخری حد تک بے شکایت انسان بنا رہے۔ اس کی نظر کسی حال میں اللہ رب العالمین سے ہٹنے نہ پائے۔وہ اپنے ظالموں کے لیے دعا کرے، اور خود اپنے لیے ہر حال میں اللہ سے امیدوار بنا رہے۔ جب کوئی انسان اس طرح مثبت رویے کا ثبوت دیتا ہے تو یہ اس کے لیے کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے، ایک ایسی شخصیت جس کے اندر اپنے ظالموں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو، جو منفی تجربہ کے دوران بھی مثبت رویے پر قائم رہے، جو اپنے معاملے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے۔جس کا سینہ ہر حال میں ربانی اسپرٹ سے بھرا رہے۔ جو اپنی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہ کرے، بلکہ اپنے تمام معاملے کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو اللہ کی طرف سے وہ خصوصی عطیہ دیا جاتا ہے جس کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے۔