امانت کیا ہے
انسان کے مقصد تخلیق کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا۔ (33:72)یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔
امانت سے مراد یہاں اختیار کی آزادی (freedom of choice) ہے۔کائنات میں یہ آزادی صرف انسان کو حاصل ہے، انسان کے سوا کسی اور مخلوق کو یہ آزادی حاصل نہیں۔ ظلوم اور جہول کا لفظ اس آیت میں باعتبارِ نتیجہ ہے۔ یعنی انسان نے ایڈونچرزم (adventurism) کے تحت اس امانت کو قبول کرلیا، لیکن عملا وہ اس پر پورا نہیں اترے۔ اس بنا پر وہ باعتبار نتیجہ ظالم اور جاہل قرار پائے۔
انسان کو نفسیات کی زبان میں سوچنے والا حیوان (thinking animal)کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے یا غیر انسان۔ سوچ کا صحیح استعمال انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے، اور سوچ کا غلط استعمال انسان کو ہر اعتبار سے ناکام بنا دیتا ہے۔
انسان کو سوچنے کی صلاحیت اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اس کا صحیح استعمال کرے، وہ تخلیق میں تدبر کرے،وہ تخلیق کی معنویت کو تلاش کرے، وہ تخلیق کی حکمت کو دریافت کرے، وہ تخلیق کے مقصد کو پائے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ یہی تدبر امانت کے صحیح استعمال کا آغاز ہے۔ اسی تدبر میں کامیابی کا نام کامیابی ہے، اور اسی تدبر میں ناکامی کا نام ناکامی ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں آخری حد تک فرض شناسی کا ثبوت دے۔