اچانک پیشی
موت لازما ہر انسان پر آتی ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بیمار ہوتا ہے، وہ حادثے کا شکار ہوتا ہے، وہ خرابیٔ صحت کی بنا پر بیڈ ریڈن (bedridden) ہوجاتا ہے۔اور آخر میں پھر مر جاتا ہے۔ مگر کچھ موتیں ایسی ہیں جو اچانک آتی ہیں۔ جیسے انڈیا کے مشہور سائنسداں ڈاکٹر عبدالکلام جو 27 جولائی 2015 کو اچانک شیلانگ میں وفات پاگیے۔ اس وقت وہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنا لکچر دے رہے تھے۔ آخری جملہ وہ مکمل نہیں کر پائے تھے کہ ان کا خاتمہ ہو گیا۔
اچانک موت کا مطلب اچانک پیشی ہے۔اچانک موت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا حساب دینے کے لیے اچانک مالک یوم الدین کی عدالت میں حاضر کردیا جائے۔ ایک ایسے مقام پر جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے :ما منکم من أحد إلا وسیکلّمہ اللہ یوم القیامة، لیس بین اللہ وبینہ ترجمان (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6539)۔ یعنی تم میں سے ہر ایک سے ضرور اللہ کلام کرے گا، اس طرح کہ اللہ اور انسان کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔
ہر آدمی پر لازما موت کا لمحہ آنے والا ہے۔ خواہ وہ لمحہ اچانک آئے یا تاخیر کے ساتھ آئے۔ یہ تصور انسان کو ہلا دینے والا ہے کہ وہ بے اختیار و مددگار حالت میں ایک دن اپنے آپ کو اس طرح پائے گا کہ ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف اللہ رب العالمین۔ اس پیشی کے بارے میں عمر بن خطاب نے فرمایا: تجہّزوا للعرض الأکبر (الزھد والرقائق لابن المبارک:306) یعنی بڑی پیشی کے لیے تیاری کرو۔
بڑی پیشی کے لیے تیاری یہ ہے کہ آدمی اس سوچ کے ساتھ جئے کہ اس کو کوئی ایسی بات نہیں کرنا ہے جو اللہ رب العالمین کی عدالت میں قبول ہونے والی نہ ہو۔ وہ اپنے قول اور اپنے عمل کا اس اعتبار سے نگراں بن جائے ۔وہ اپنا محاسبہ آپ کرنے لگے۔ وہ شام کو سوئے تو اسی احساس کے ساتھ سوئے ، اور صبح کو جاگے تو اسی احساس کے ساتھ جاگے۔