امت مسلمہ کی اصلاح
امام مالک (وفات 197 ھ) دوسری صدی ہجری کے ایک عظیم مسلم اسکالر تھے۔ انھوں نے اپنے شیخ وہب ابن کیسان کے حوالے سے کہا : إنہ لا یصلح آخر ھذہ الأمۃ إلا ما اصلح أولھا (مسند الموطا للجوہری: 783) یعنی اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح بھی اسی طریقہ پر ہوگی جس سے امت کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی تھی۔
اس قول کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایک اور بات کو شامل کیا جائے۔ وہ یہ کہ بعد کا زمانہ، بدلا ہوا زمانہ ہوگا۔ اس لیے اس قول سے بعد کے زمانہ میں رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ بعد کے زمانے کے اہل علم یہ دریافت کریں کہ بعد کے زمانے کے حالات کے اعتبار سے اس کا انطباقِ نو (reapplication) کیا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں زمانہ کے فرق کو سمجھا جائے۔ مثلا ساتویں صدی عیسوی کا زمانہ امت کا دورِ اول تھا۔ اس وقت دنیا میں تشدد کلچر (culture of violence) کا رواج تھا۔ اس لیے اس زمانے کے اہل ایمان کو دفاعی طور پر لڑائی کے میدان میں جانا پڑا۔ موجودہ زمانہ امن کلچر (culture of peace) کا زمانہ ہے۔ اس لیے اب زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی مشن کی منصوبہ بندی پر امن انداز میں کرنی ہوگی۔ اگر اس فرق کو نہ سمجھا جائے تو منصوبہ بندی غلط ہوجائے گی۔ اور غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
امت کی اصلاح بلاشبہ ایک اہم کام ہے۔ لیکن اصلاح کے لیے اٹھنے سے پہلے یہ دریافت کرنا ہوگا کہ حالات کی رعایت سے اصلاح کا موثر طریقہ کیا ہے۔ موثر طریقہ وہ ہے جس کا مثبت انجام برآمد ہو، جو کسی نئے مسئلے کو پیدا کیے بغیر امت کی اصلاح کا کام انجام دے۔ کوئی کام اصلاح کا ٹائٹل دینے سے اصلاح کا کام نہیں بن سکتا۔ اصلاح کا کام وہ ہے جو نتیجہ کے اعتبار سے اصلاح پیدا کرے۔ کسی کام کو جانچنے کا معیار نتیجہ ہے، نہ کہ دعوی۔