تکرار کی حقیقت

قرآن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں مضامین کی تکرار ہے۔ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے گیے۔مثلا ایک مضمون یہ ہے: التکرار فی القرآن الکریم أنواعہ وفوائدہ۔ یہ مقالہ ایک عرب عالم محمد صالح المنجد کا لکھا ہواہے، اور وہ انٹر نیٹ پر موجود ہے۔

مکررات القرآن کے بارے میں ابن تیمیہ نے لکھاہے: ولیس فی القرآن تکرار محض، بل لابد من فوائد فی کل خطاب۔ ( مجموع الفتاوى، 1995، مدینہ منورہ،14/408 )۔یعنی قرآن میں جو مکررات ہیں وہ تکرار محض نہیں، بلکہ ہمیشہ ہر تکرار میں کوئی فائدہ مطلوب ہوتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ الفاظ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محدود ہوتے ہیں، لیکن اپنی معنویت کے اعتبار سے کوئی لفظ محدود نہیں ہوتا۔ جب بھی کسی حقیقت کا بیان کیا جائے گا تو الفاظ میں اس کا بیان ہوگا، لیکن معنی کے اعتبار سے اس کے پہلو بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ظاہری الفاظ کے اعتبار سے خواہ کوئی بیان محدود نوعیت کا ہو۔ لیکن اپنے معنی کے اعتبار سے وہ متعدد پہلو کا حامل ہوگا۔ یہ متعدد پہلو ہمیشہ تدبر اور غور وفکر سے معلوم ہوتے ہیں۔اس معاملے کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے: وَکَذَلِکَ أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَصَرَّفْنَا فِیہِ مِنَ الْوَعِیدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ أَوْ یُحْدِثُ لَہُمْ ذِکْرًا۔(20:113) یعنی اور اسی طرح ہم نے عربی کا قرآن اتارا ہے اور اس میں ہم نے طرح طرح سے وعید بیان کی ہے تاکہ لوگ ڈریں یا وہ ان کے دل میں کوئی سوچ ڈال دے۔

قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں کوئی بات مکرر بیان کی جائے تو اس کا پہلا مقصد یاد دہانی ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی بھولی ہوئی بات کو دوبارہ یاد کرے، اور اس میں سبق کا جو پہلو ہے وہ اس کو اپنے ذہن میں تازہ کرے۔ تکرار کا دوسرا مقصد وہ ہے جس کو قرآن کی اس آٰیت میں احداثِ ذکر کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے اندر سنجیدگی ہوگی تو وہ اس میں تدبر کرے گا، اس تدبر کے نتیجے میں یہ ہوگا کہ وہ اصل بات کے مزید پہلووں کو دریافت کرے گا۔ کیوں کہ الفاظ خواہ محدود ہوں لیکن باتیں اپنے معنی کے اعتبار سے کبھی محدود نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بات کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ آدمی جب اپنی عقل کو استعمال کرکے اس پر غور کرتا ہے تو بات کے دوسرے بہت سے پہلو اس پر کُھلتے ہیں، اور اس طرح اس کا ذہنی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ جب بھی کسی بات کو مکرر بیان کیا جائے تو اس کے ایک حصے کی تکرار ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر بیک گراؤنڈ سامنے نہیں آتا۔ مگر اس کا دوسرا حصہ غیر مکرر ہوتا ہے۔ اس غیر مکرر حصے میں کوئی نیا پہلو موجود ہوتا ہے جو تدبر یا غور و فکر کے ذریعے سمجھ میں آتا ہے۔

کسی بات کے نئے پہلو کی نشاندہی کرنا ہو تب بھی بیک گراؤنڈ کو بتانے کے لیے اس بات کے کچھ اجزا ء کو ہمیشہ دہرانا پڑتا ہے۔ قاری کو چاہیے کہ وہ دہرائی جانے والی بات کو بیک گراؤنڈ کے معنی میں لے، اور غور کرکے یہ دریافت کرے کہ تکرار کا اصل مقصد کیا ہے۔ یہ بامعنی کلام کا ضروری اسلوب ہے۔ جو لوگ اس اسلوب کو تکرار کہیں، وہ کلام کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنانے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ اس دنیا میں تکرار محض کوئی چیز نہیں۔ سارا معاملہ یہ ہے کہ قاری اپنے ذہن کو حرکت میں لائے، وہ ہمیشہ غور وفکر سے کام لے۔ غور و فکر کے ذریعے وہ کلام کے پوشیدہ پہلوؤں کو دریافت کرے گا۔ اور پھر وہ جانے گا کہ وہ جس چیز کو تکرار کہہ رہا تھا، وہ خود اس کے فہم کا قصور تھا۔

مثال کے طور پر اگر صبح کا وقت ہے اور کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آج بھی دوبارہ اپنے وقت پر صبح کا سورج طلوع ہوگیا۔ تو بظاہر یہ ایک تکرار کی بات ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مخاطب کو یہ دعوت دینا ہے کہ طلوعِ آفتاب کے ظاہرہ پر غور کرو۔ تم کو اس میں نئے نئے پہلو سامنے آئیں گے۔ تم نظامِ فطرت کے نئے نئے پہلو ؤں کو دریافت کروگے۔اس طرح تمہارا غور و فکر تمہارے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کلام میں تکرار قاری کو اس پراز سر نو غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ وہ صرف تکرار کا معاملہ نہیں۔مثلا قرآن میں ابلیس اور آدم کا قصہ سات بار بیان ہوا ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس میں ستر سے بھی زیادہ پہلو سمجھ میں آئیں گے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom