سوال و جواب

سوال

کیا غیرمسلموں میں دعوت کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح پیغمبر پر عائد تھی؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عباد افضل، الہ آباد، یوپی)

جواب

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ غیرمسلموں میں دعوت کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح پیغمبر پر عائد تھی۔ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے پیدا ہونے والے انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ پیدا کرنے والے نے ان کو کس لیے پیدا کیا، اور آخر کار ان کا خالق اس سے کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ اس عمل کو قرآن میں انذار و تبشیر کہا گیا ہے۔ پیدا ہونے والے انسان چوں کہ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے، اس لیے انذار و تبشیر کا عمل بھی قیامت تک جاری رہے گا۔

اس معاملہ میں پیغمبر کی حیثیت نمونہ (model) کی ہے۔ پیغمبر نے اپنے زمانے میں انذار و تبشیر کا جو کام کیا، وہ ایک اعتبار سے اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے طور پر تھا، اور دوسرے اعتبار سے وہ تمام اہل ایمان کےلیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ حدیث میں آیا ہے: صلوا کما رأیتمونی أصلی(صحیح البخاری، حدیث نمبر631)۔ توسیعی معنی کے اعتبار سے حدیث میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تم انذار و تبشیر کا کام اس طرح کرو جس طرح تم مجھ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔

قرآن حدیث میں یہ حکم بار بار آیا ہے۔ مثلا قرآن میں ہے کہ امت محمدی کی حیثیت امت وسط (البقرۃ:143)کی ہے۔ یعنی بیچ کی امت۔ اُس کا کام یہ ہے کہ وہ سچائی کا علم پیغمبر سے حاصل کرے، اور پھر اس کو بعد کے زمانے میں تمام قوموں تک پہنچاتی رہے۔ اسی اعتبار سے اہل ایمان کے بارے میں یہ حدیث آئی ہے: المؤمنون شہداء اللہ فی الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر2642)۔ یعنی مومن زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ اس بات کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: تاکہ میں تم کو اس قرآن کے ذریعہ انذار کروں، اور جس کو پہنچے ( وہ بھی قیامت تک انذار کا کام کرتا رہے)۔الانعام: 19

سوال

میں ماہ نامہ الرسالہ پچھلے دس برسوں سے مطالعہ کر رہاہوں۔ مجھے اس مشن نے بہت اندر تک متاثر کیا ہے، اور مجھے بالکل بدل دیا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ سے ملاقات اور انٹر ایکشن کیا تھا۔ اس وقت آپ نے مجھ سے الرسالہ کے متعلق فیڈ بیک مانگا تھا۔لیکن میں اس وقت کچھ بول نہ پایا تھا۔ اب اس خط کے ذریعہ میں اسے لکھ رہا ہوں کہ میرے اندر الرسالہ کی وجہ سےکیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ میری پیدائش 1989 میں ہوئی۔ نو سے پندرہ برس کی عمر تک میں نے گھر سے دور رہ کر مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کالج سے گریجویشن اور ایم اے کیا۔ الرسالہ مشن سے جو فائدہ ہوا، ان میں سے چند یہ ہیں۔(1)پہلا فائدہ جو الرسالہ نے دیا، وہ ہے اسلام کی روح سے متعارف کرانا۔ میں ایک تعلیم یافتہ گھر میں پیدا ہوا، دینی ماحول میں رہا، مدرسے میں وقت بِتایا، مگر دین کو دریافت نہ کرپایا تھا۔ دین کے نام پر جو چیز پایا تھا وہ ہے منفی ذہن، شکایتیں، مسلک پرستی، اور قوم پرستی، وغیرہ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ صبر و شکر جیسی فنڈا منٹل چیز بھی مَیں نہیں جان پایا تھا۔ یہ ماہ نامہ الرسالہ نے مجھے سکھایا۔ماہ نامہ الرسالہ کی بات کو تحقیق کرنے کے لیے میں نے پورے قرآن کو پڑھا، اور ہزاروں احادیث پڑھی، تب جاکر مجھے یقین کے درجے میں صحیح اسلام حاصل ہوا۔ (2)دوسرا زبردست فائدہ یہ ہوا کہ میں نے دین کی سیاسی تعبیر کے انحراف کو سمجھا، اور نام نہاد مجاہد بن کر اپنی زندگی کو ہلاکت میں نہ ڈالا۔ ورنہ بچپن ہی سے مجھےجہاد کو اس طرح بتایا گیا تھا کہ گویاوہی اسلام کا اصل مشن ہے، اور وہی مسلمانوں اور اسلام کے مسئلہ کا حل ہے۔ (3) تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ آج آپ کی تعلیمات کی وجہ سے میں یقین (conviction) میں جیتا ہوں۔ جب میں مدرسہ سے نکلا تھا، نئے زمانے کی تبدیلیوں کو دیکھتا تھا، سمجھ نہیں پاتا تھا کہ سچائی کیا ہے۔ دل میں خدا، رسول اور آخرت کا یقین تو تھا، مگر ماڈرن ایج سے مَیں انھیں ریلیٹ (relate) نہیں کر پاتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں کنفیوزن اور اسٹریس میں جیتا تھا۔ اس طرح میں نے پانچ برس تک گزارا۔ بڑی مشکل کا دور تھا یہ۔ کیوں کہ میں ہر تھاٹ اور ہر ڈسپلن کو پڑھتا، مگر اس میں یقین نہیں پاتا تھا۔ لیکن خدا کے فضل سے میں نے ماہ نامہ الرسالہ کے ذریعہ ماڈرن ایج کو اسلام کے ریفرنس میں صحیح طور پر پالیا۔ مجھے اندھیرے سے اجالا ملا۔ مندرجہ بالا تبدیلیاں صرف علاماتی تبدیلیاں ہیں۔ ورنہ الرسالہ نے تو مجھے پوری طرح بدل دیا، سب کچھ بدل دیا۔ آئندہ ان شاء اللہ میں اپنا وقت اور پونجی دین کے کام میں صرف کروں گا۔ دعا کیجیے کہ میں دعوت کے کام کو اپنا مشن بناپاؤں، خدا مجھےمعاف کرے، میرا تزکیہ کرے، اور مجھے جنت نصیب کرے۔ آخر میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ نے صحیح معنوں میں دین کا احیا کیا ہے۔ اللہ آپ کی اس عظیم ترین کوشش کو قبول کرے، اور آپ کو اس کا اعلیٰ ترین صلہ دے۔ آمین۔ (محمد اظہر مبارک، بھاگل پور)

جواب

میرا تجربہ ہے کہ صرف فارمل تعلیم، علم کے حصول کے لیے کافی نہیں۔ خواہ وہ سیکولر تعلیم ہو یا دینی مدرسے کی تعلیم۔ فارمل تعلیم جو اداروں میں ہوتی ہے،اس میں آدمی کسی دوسرے کی بتائی ہوئی باتوں کا علم حاصل کرتا ہے۔ مگر علم کا خزانہ اس سے بہت زیادہ ہے، جتنا کہ کسی بتانے والے نے آپ کو بتایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی فارمل ایجوکیشن کے بعد خود مطالعہ کرے۔ خود مطالعے سے آدمی، خود دریافت کردہ علم کو حاصل کرے گا۔ اور خود دریافت کردہ علم ہی سے آدمی کو حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

ایجوکیشن کی دو قسمیں ہیں، فارمل ایجوکیشن اورانفارمل ایجوکیشن۔ الرسالہ مشن کی حیثیت انفارمل ایجوکیشن کی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن پائے ہوئے لوگوں کو انفارمل ایجوکیشن مہیا کی جائے، تاکہ ان کی علمی کمی پوری ہو۔ دونوں طریقوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں تعلیمی طریقے ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتے ہیں۔دونوں طریقوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔مثلا مدرسے کی تعلیم سے اگر دین کا روایتی علم حاصل ہوتا ہے تو انفارمل ایجوکیشن کے ذریعہ آدمی دور جدید سے واقفیت حاصل کرتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ کسی انسان کے لیے دونوں ہی ضروری ہے۔

سوال

الرسالہ کے ایک شمارہ میں ہے کہ آپ نے ا یک صاحب کونصیحت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ایک آدمی آپ کی جاب لے سکتا ہے، مگر کوئی آپ کی تقدیر نہیں چھین سکتا۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (ڈاکٹر روشن کمار، گجرات)

جواب

جاب کا تعلق کسی کمپنی سے ہوتا ہے۔ کمپنی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو جاب دے، اور جب چاہیے کسی کی جاب ختم کردے۔ کمپنی کا یہ حق معاشیات کی دنیا میں ایک مسلّم حق سمجھا جاتا ہے۔اس معاملے میں ہر کمپنی کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے، اور جو فیصلہ نہ چاہے نہ کرے۔

لیکن تقدیر کا تعلق وسیع تر دنیا سے ہے۔ تقدیر کی دنیا خالق کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق تقدیر کی اس دنیا میں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ فطرت کی دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ سے ایک موقع چھین لے تب بھی وہاں دوسرے مواقع موجود رہتے ہیں ۔ کوئی ادارہ اپنے دیے ہوئے موقع کو واپس لے سکتا ہے۔ لیکن فطرت کی دنیامیں جو مواقع ہیں، ان کو منسوخ کرنا کسی شخص یا ادارے کے لیے ممکن نہیں۔

لیکن یہ دوسرے مواقع اپنے آپ کسی کو نہیں ملتے۔ جس طرح کوئی آدمی جب ایک موقع حاصل کرتا ہے تو وہ اس کو اس وقت ملتا ہے، جب کہ اس نے اپنے آپ کو اس کے حسب حال تیار کیا ہو۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اگر ایک موقع اس سے چھن جائے تو وہ کسی دوسرے موقع کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنے آپ کو دوبارہ تیار کرے۔ جو آدمی ایسا کرے گا، اس کو کبھی کسی کمپنی یا کسی ادارے سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom