آدم سے مسیح تک
دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب کا مقصد اللہ تعالی کی وحدانیت کا پیغام دینا تھا۔ مگر لوگوں نے عام طور پران کے ساتھ برا سلوک کیا۔ حضرت عیسی کو کوئی ساتھی نہ ملا۔لوگ ان کے قتل کے درپےہوگئے۔ حضرت لوط نے اپنی بستی کو چھوڑا تو ان کے ساتھ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی کا قافلہ توریت کے بیان کے مطابق صرف آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔حضرت ابراہیم جب اپنے وطن عراق سے نکلے تو اُن کے ساتھ اُن کی بیوی سارہ تھیں اور ان کے بھتیجے لوط۔ بعد کو اس قافلہ میں ان کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق شامل ہوئے۔ حضرت مسیح کو ساری کوششوں کے باوجود صرف 12 آدمی ملے۔ وہ بھی، بائبل کے بیان کے مطابق، آخر وقت میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بیشتر انبیاء کا حال یہی رہا، کوئی تنہا رہ گیا اور کسی کو چند ساتھ دینے والے ملے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5705)۔ قرآن کی یہ آیت اس پوری تاریخ پر ایک تبصرہ ہے: افسوس ہے بندوں کے حال پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انھوں نے اس کی ہنسی اڑائی (یس:30)۔
لوگوں کے اس سلوک کی بنا پر ایسا ہوا کہ قدیم زمانے میں انبیاء کی کوئی تاریخ نہ بن سکی۔ ہر نبی نے عملاً اپنے پیغمبرانہ رول کو ادا کیا۔ لیکن مدون تاریخ (recorded history) میں ان نبیوں کا اندراج نہ ہوسکا۔آخر میں اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کو پیدا کیا۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبرانہ مشن کو مدون تاریخ کا ایک حصہ بنا دیں۔ اسی حقیقت کو فرانسیسی مستشرق رینان (Ernest Renan)نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — اسلام تاریخ کی مکمل روشنی میں وجود میں آیاIslam was born in the full light of history:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت تاریخ میں اس طرح ثبت ہوئی کہ عمومی طور پر اہل علم نے اس کا اعتراف کیا۔ آپ کی تاریخی حیثیت پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ان میں سے ایک کتاب وہ ہے جو دی ہنڈریڈ(The 100) کے نام سےامریکا سے شائع ہوئی۔