قرآن کا اسلوب
قرآن کا اسلوب تبیین کا اسلوب ہے، قرآن کا اسلوب تحقیق کا اسلوب نہیں ۔قرآن کا طریقہ حقیقت کو بیان کرنے (statement of fact) کا طریقہ ہے، قرآن میں عقلی تجزیہ (rational analysis) کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
عام کتاب کی طرح قرآن میں یہ اسلوب نہیں ہے کہ ہر بات لفظوں میں لکھ دی گئی ہو کہ اس کو پڑھ کر جان لیا جائے۔ بلکہ قرآن میں اساسیات (basics) کو بیان کردیا گیا ہے۔ اب یہ قاری کا کام ہے کہ وہ غور و فکر کرکے اس کی تفصیل (detail) معلوم کرے۔قرآن میں یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا کہ آدمی خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہو۔ قرآن ایک رہنما کتاب ہے، نہ کہ معلومات کی کتاب۔ اس طرح جب کوئی شخص مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعے سچائی کو دریافت کرتا ہے تو سچائی پر اس کو اتھاہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ پھر یہ یقین اس کی زندگی میں عمل کی صورت اختیار کرتا ہے۔ وہ اس کی سوچ، اس کی گفتگو، اس کی عملی سرگرمیوں پر چھا جاتا ہے۔
قرآن کا یہ اسلوب اس کے قاری کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہنی ارتقا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر پیدا ہوجائے۔ تخلیقی فکر آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچانے والی ہے۔وہ آدمی کے لیے اس کے سفر حیات کو ایک زندہ سفر بنا دیتی ہے۔ ایسا آدمی ہر لمحہ اپنے لیے ذہنی غذا (intellectual food) حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس طرح اس کی ذہنی زندگی کبھی اور کسی حال میں ختم نہیں ہوتی۔