استقامت کیاہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:قل ربی اللہ ثم استقم (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2410)۔ یعنی کہو کہ اللہ میرا رب ہے اور اس پر جم جاؤ۔ استقامت کا مطلب ہے جم جانا (to stick)۔ اس کا مطلب ہے ہر حال میں ربانی روش پر قائم رہنا کسی حال میں اپنے قول سے نہ ہٹنا۔ اللہ کو اس طرح رب بنانا کہ وہی انسان کا اصل کنسرن بن جائے۔اصل یہ ہے کہ اللہ کو رب بنانے کی دو صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ زبان سے یہ کہہ دینا کہ میں نے اللہ کو اپنا رب بنایا۔ اس کے بعد اس طرح زندگی گزارنا کہ آدمی کا عمل الگ ہو اور اس کا زبانی اقرار الگ۔ ایسے آدمی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اس طرح اپنا رب بنائے کہ وہی اس کی زندگی کا مشن بن جائے۔ وہ اس کے مطابق سوچے۔ اس کے صبح وشام اس کے مطابق گزریں۔ وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اسی کا عامل اور اس کا داعی بن جائے۔ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس میں شامل (involve) کردے۔ یہی دوسری قسم کا انسان وہ ہے کہ جو اللہ کو اپنا رب بنانے کے بعد اس پر قائم ہوجائے۔

استقامت ایک فطری حقیقت ہے۔ ہر انسان اپنی دنیا کے معاملے میں استقامت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ دنیا میں جو شخص اپنے معاملے میں استقامت کا طریقہ اختیار کرے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جو شخص دنیا میں استقامت کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ ناکام ہوکر رہ جاتا ہے۔

استقامت کا یہی طریقہ آخرت کے معاملے میں بھی مومن کو اختیار کرنا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمانی شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرےکہ اس کے ایمان کے ساتھ استقامت کا پہلو شامل ہوجائے۔ ایمان اگر شعوری اقرار ہے تو استقامت ایک شعوری عمل ہے۔ ایمان اور استقامت، دونوں کے لیے شعوری بیداری لازمی طور پر ضروری ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom