ایک سنتِّ رسول
سن چھ ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فریق مخالف سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد جب معاہدے کی دفعات طے ہوگئیں، اور اس کو کاغذ پرلکھا جانےلگا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کو لکھواتے ہوئے کہا: اکتب یا علی، ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ۔
فریق ثانی کے لیڈر نے فوراً اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ آپ محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبد اللہ لکھیے، جو کہ ہمارے اور آپ کے درمیان مشترک ہے۔آپ نے بلابحث کہا: امح یا علی، اللہم إنک تعلم أنی رسولک،امح یا علی واکتب، ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔یعنی اے علی، اس کو مٹادو۔ اے اللہ، تو جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں۔ اے علی، مٹادو اور لکھو، یہ وہ (دفعات) ہیں جن پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کیا۔ اس کے بعد صلح کا معاہدہ طے پاگیا۔ اور آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ واپس آگیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ بلاشبہ اللہ کی رہنمائی کے مطابق تھا۔ اللہ کی رہنمائی کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ سورہ الفتح میں اس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَہْدِیَکَ صراطًا مُسْتَقِیمًا (48:2)۔ آپ کا یہ عمل بلاشبہ صراطِ مستقیم کا ایک جزء تھا۔ اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ابدی اصول ہے۔ جس طرح دور اول میں اس اصول کو اختیار کرنے کے نیتجے میں فتح مبین (الفتح:1) حاصل ہوئی۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں بھی فتح مبین کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ مسلمانوں کو فتح مبین تک پہنچانے والا نہیں۔
منصوبہ بندی کایہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ مثلا موجودہ زمانے میں اہل ایمان یہ چاہتے ہیں کہ ان کو یہ آزادی ہو کہ وہ قرآن کا پیغام ساری دنیا میں کھلے طور پر پہنچائیں۔ لیکن بار بار ایک رکاوٹ پیش آتی ہے۔ وہ یہ کہ آج کا انسان، اظہار رائے کی آزادی (freedom of expression) کو انسان کا ایک مطلق حق (absolute right)سمجھتا ہے، اور اس کو وہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حق کے اس استعمال کا دائرہ کبھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام کے بارے میں آزادانہ اظہارِ خیال کرتا ہے، اور اس کو اپنا ناقابلِ تنسیخ حق سمجھتا ہے۔ مسلمان اس طرح کے واقعات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ اس کو شتمِ رسول (blasphemy) قرار دے کر چاہتے ہیں کہ شاتم کو قتل کردیں۔ آج کے لوگوں کے لیے مسلمانوں کی یہ روش قابل قبول نہیں۔ چناں چہ اس پر سخت نزاع شروع ہوجاتی ہے، اور دعوتِ اسلام کا کام جیو پرڈائز (jeopardize) ہوجاتا ہے۔
شتم رسول (blasphemy) پر ہنگامہ کرنا یا شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا، اصولاً اسلام کےخلاف ہے۔ قرآن کی کسی آیت یا رسول کے کسی قول میں یہ حکم موجود نہیں۔ تاہم بالفرض اگر کسی کا اصرار ہو کہ یہ اسلام کا ایک حکم ہے تب بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا مکمل طور پر چھوڑدیں۔ تاکہ دعوتِ اسلام کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
رسول کا رسول ہونا بلاشبہ اسلام کا ایک مسلمہ عقیدہ ہے۔ پھر بھی رسول اور اصحابِ رسول نے رسول اللہ کے لفظ کو کا غذ سے مٹادیا۔ اسی سنت پر مسلمانوں کو بھی عمل کرنا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی روش کو بدل دیں تاکہ اسلام کا پر امن مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔ اسی روش کا نام حکمت (wisdom) ہے۔ حکمت اسلام کا ایک لازمی اصول ہے۔ حکمت کے بغیراسلام کا مشن کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتا۔