تخلیقی ایمان

ایک روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: کنا نصلی یوما وراء رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فلما رفع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم رأسہ من الرکعة وقال: ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ قال رجل وراءہ:ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ، فلما انصرف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال:’’من المتکلم آنفا؟‘‘ قال الرجل:أنا یا رسول اللہ، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:’’ لقد رأیت بضعة وثلاثین ملکا یبتدرونہا أیہم یکتبہا أولا ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر18996)۔یعنی رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکوع کے بعد اپنا سر اٹھایا، اور یہ کہا: سمع اللہ لمن حمدہ۔ ایک آدمی جو آپ کے پیچھے کھڑا تھا، اس نے کہا:ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔ رسول اللہ نے جب (سلام کے بعد ) منھ پھیرا تو کہا، ابھی کس نے وہ بات کہی تھی، اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول، مَیں نے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نےدیکھا کہ 30 سے زیادہ فرشتے دوڑے اس کی طرف، تاکہ کون پہلے اس کو لکھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جو نماز سکھائی تھی، اس میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنے کی تعلیم دی تھی۔ لیکن مذکورہ صحابی نے اس کلمہ پر اضافہ کرکے اس طرح کہا: ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔فرشتوں کو یہ طریقہ اتنا زیادہ پسند آیا کہ وہ اس کو لکھنے کے لیے بڑی تعدا د میں دوڑ پڑے۔ فرشتوں کا یہ عمل اضافہ شدہ کلمات کی افضلیت کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ صحابی کے تخلیقی اضافہ (creative addition)کی بنا پر تھا۔

اس سے ایک سنت صحابہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی مومن دعا اور ذکر کے مسنون کلمات پر تخلیقی اضافہ کرسکے تو یہ اس کے لیے ایک عظیم عمل ہوگا۔ جس کو لکھنے کے لیے فرشتے بڑی تعداد میں دوڑ پڑیں۔اس قسم کا اضافہ کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہنے والے کے اندر تخلیقی ایمان موجود ہے۔

اس قسم کے اضافے کی ایک مثال وہ ہے جو غزوۂ خندق( 5 ہجری) سے معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت مدینہ کے حالات بہت سخت تھے۔ قرآن میں اس کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ(33:7)۔اس وقت کچھ صحابہ نے پریشانی کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبر کی تلقین کی اور دعائیہ انداز میں فرمایا:اللہم لا عیشَ إلا عیشُ الآخرہ، فاغفر للأنصار والمہاجرہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1805)۔ یعنی اے اللہ، زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اس حدیث کو پڑھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ اس کو ایک کتابی روایت کے طور پر پڑھ لیں۔ اور اس سے ایک تاریخی واقعے کے بارے میں واقفیت حاصل کریں۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس واقعے کو پڑھتے ہوئے آپ کا زندہ ایمان آپ کے اندر ایک فکری بھونچال پیدا کردے۔ آپ کا حال یہ ہو کہ اس حدیث کو پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں ہیجان پیدا ہوجائے۔ اور پھر شدت تاثر کے تحت آپ کی زبان پر یہ الفاظ آجائیں:اللہم لا فوزَ الا فوزُ الآخرۃ... یعنی اے اللہ، کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر آپ ایسا کریں تو یہ آپ کے لیے اسی قسم کا ایک عمل ہوگا جس کو لکھنے کےلیے فرشتے دوڑ پڑیں۔

دعا اور ذکر کے جو ماثور کلمات ہیں، ان کو دہرانے کا بلاشبہ ثواب ہے۔ لیکن اگر آدمی کے اندر زندہ ایمان ہو، اس کا ذہن بیدار ہو، اس کے صبح و شام یادِ خداوندی میں گزرتے ہوں تو اس کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی اس قسم کا کوئی تجربہ پیش آئے تو وہ اس کے جذبات میں تموج پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس کا تیار ذہن اس کے بارے میں مزید سوچنے لگے گا۔ اس کا تیار ذہن اس کے اندر مزید فکری اضافہ کرے گا۔ یہ اضافہ آدمی کی ایمانی زندگی کا ثبوت ہے۔ اور یہ ایمانی زندگی اتنی قیمتی ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتی ہے تو فرشتے اس کو ریکارڈ کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کو یہاں تخلیقی ایمان کا نام دیا گیا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom