امت کا دورِ زوال

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ، مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى، علماؤہم شر من تحت أدیم السماء من عندہم تخرج الفتنة وفیہم تعود۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر1763)۔ یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے جب کہ اسلام میں سے اس کا صرف نام باقی رہے، اور قرآن میں سے صرف اس کا نشان باقی رہے۔ ان کی مسجدیں آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے بری مخلوق ہوں گے، ان سے فتنہ نکلے گا، اور انھیں کی طرف فتنہ لوٹے گا۔

یہ حدیث رسول اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ امت کے بعد کے دور کے بارے میں اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے، وہ اس وقت کی بات ہے جب کہ امت قانونِ فطرت کے مطابق زوال کا شکار ہوجائے گی۔ اس زمانے میں دین کا صرف فارم باقی رہے گا، اسپرٹ کے اعتبار سے امت کے افراد بالکل خالی ہو جائیں گے۔ اس زمانے کے علماء غلط فتوے دیں گے، اور غلط تقریریں کریں گے۔ اس کے نتیجے میں جو فساد برپا ہوگا، اس کا شکار پہلے عوام ہوں گے اور اس کے بعد خود علماء اس کی زد میں آجائیں گے۔

علماء کے غلط فتووں اور غلط تقریروں سے جو چیزیں پیدا ہوں گی۔ ان میں سے ایک شدت پسندی (غلو) ہوگا۔ یہ غلو پہلے اعتقادی شدت کی شکل میں پیدا ہوگا۔ پھر بڑھتے بڑھتے امت کے افراد آپس میں لڑنے لگیں گے۔ یہ آپس کی لڑائی مزید بڑھے گی۔ یہاں تک کہ خود علماء اس کی زد میں آجائیں گے۔اس وقت علماء جاگیں گے۔ مگر برائی اتنی بڑھ چکی ہوگی کہ ان کا جاگنا، نہ ان کے کچھ کام آئے گا، اور نہ دوسروں کو اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوگا۔ یہ زوال ہر قوم پر آتا ہے۔ اس میں کسی قوم کا کوئی استثناء نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom