توازن، تدریج

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ "توازن" قومی ترقی کے لیے  شاہ کلید ہے۔ یعنی متوازن عمل کے ذریعہ ہی ہم قومی ترقی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔مگر یہ صحیح نہیں۔ قومی ترقی کے عمل کے لیے  کلیدی لفظ تدریج ہے۔نہ کہ توازن۔

 تو ازن بھی ایک اصول ہے اور تدریج بھی ایک اصول۔ مگر ہر ایک کا مقامِ استعمال الگ ہے۔ شاعر کی زبان میں ہر بات کا ایک محل ہوتا ہے اور ہر نکتہ کا ایک مقام :

ہر سخن موقع و ہر نکتہ مکانے دارد

جو لوگ قومی ترقی کے عمل میں توازن کو شاہ کلید بتاتے ہیں وہ اپنی تقریروں اور تحریروںمیں اصرار کر رہے ہیں کہ ہم کو ہر محاذ پر بیک وقت ہمہ جہتی عمل کرنا ہو گا۔ ذہنی بیداری اور تعلیم جیسے کاموں کے ساتھ عین اسی وقت سیاسی عمل اور حقوق طلبی کی مہم بھی پوری طاقت کے ساتھ جاری کرنا ہوگا۔ ور نہ ہم زندگی کی دوڑ میں ناقابلِ عبور حد تک پیچھے ہو جائیں گے۔

 حتی کہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ" اگر کوئی قوم صرف تعلیم یا اقتصادیات کے محاذ کولے کربیٹھ جائے اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے اور سیاست میں دوسروں کے شانہ بشانہ چلنے کی کوشش نہ کرے تو وہ حقوق سے تو محروم ہی رہے گی، خود تعلیم اور اقتصادیات کو حاصل کرنے کے مواقع بھی اس کو نہیں مل سکتے"۔

 اس قسم کے مضامین یہ مان کر لکھے جاتے ہیں کہ ابھی تک ہم کو قومی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ ان کو حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ قسم کے قائدین اور دانشوروں کی اپنی اولاد تعلیمی اور اقتصادی میدان میں اعلیٰ ترقیات حاصل کر رہی ہیں۔ اور وہ فخر کے ساتھ اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ملت کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی کے لیے  تو ضروری ہے کہ پہلے سیاسی حقوق کی منزل طے کی جائے مگر خود ان حضرات کی اپنی اولادیں اس منزل کے طے ہونے سے پہلے ہی تمام ترقیاں حاصل کر رہی ہیں۔

  اس قسم کی باتیں کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے بیٹوں کو سمندر پار کےملکوں میں تعلیم و ترقی کے لیے  بھیج رکھا ہے یا ان کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ہوسٹلوں میں داخل کر رکھا ہے جہاں وہ ملی سیاست کے ماحول سے الگ رہ کر تعلیمی ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ وہ انھیں قومی حقوق کی سیاست سے پوری طرح دور رکھتے ہیں۔ اپنے بیٹوں کے لیے  ترقی کا راز وہ سیاست سے علیحدگی میں سمجھتے ہیں۔ اور قوم کے بیٹوں کے لیے  ترقی کار از سیاست کے طوفان میں غوطہ خوری میں۔

  ان حضرات کی یہ دہری پالیسی بتاتی ہے کہ یا تو انہیں اپنی بات پر یقین نہیں، یا ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے معاملہ میں سنجیدہ ہیں اور قوم کے بیٹوں کے معاملہ میں غیر سنجیدہ۔

اب تو ازن اور تدریج کے معاملہ کو ایک اصولی مثال کے ذریعہ سمجھے۔ ایک شخص دور ہزار روپیہ مہینہ کماتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرے کہ اس میں سے ایک ہزار روپیہ تفریحی مدوں میں خرچ کر دے تو اس سے کہا جائے گا کہ توازن کے ساتھ خرچ کرو۔ یعنی اپنی آمدنی کے لحاظ سے اپنا بجٹ بناؤ۔ جو مد زیادہ اہم ہے اس میں زیادہ رقم لگاؤ اور جو مد کم اہم ہے اس میں کم رقم خرچ کر و۔ آمد اور خرچ میں ہم آہنگی قائم کرنے کا مسئلہ ہو تو اس کے لیے  کلیدی لفظ توازن ہو گا۔

 اب دوسری مثال لیجیے۔ ایک شخص کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اب اگر توازن کے اصول کو منطبق کرتے ہوئے باپ ایسا کرے کہ جس طرح وہ بچہ کی غذا اور حفاظت کا انتظام کرتا ہے اسی طرح وہ اول روز سے اس کے کان میں سیاست کے اسباق بھی داخل کرنا شروع کر دے۔ وہ اس کو جنس کے رموز سمجھانے کے لیے  بھی ایک معلم مقرر کر دے۔ اگر کوئی باپ اس طرح اپنے بچہ کی متوازن تربیت شروع کر دے تو یہ بلاشبہ ایک لغو فعل ہوگا۔ کیوں کہ یہ زندگی کا معاملہ ہے۔ اور زندگی کا ارتقاء ہمیشہ تدریج کے اصول پر ہوتا ہے نہ کہ توازن کے اصول پر۔

 توازن بجائے خود ایک اعلیٰ اصول ہے۔ مگر زندگی کی تعمیر کے معاملہ میں کلیدی لفظ توازن نہیں ہے بلکہ تدریج ہے۔ تدریج کے اصول پر عمل کر کے ہی ہم ترقی کی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ توازن کے اصول پر عمل کرنے کی صورت میں ہم کہیں نہیں پہنچیں گے۔ خود ہماری قریبی تاریخ میں اس کی واضح مثال موجود ہے۔

 اورنگ زیب (۱۷۰۷ - ۱۶۱۸) سے لے کر اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ بر صغیر ہند کے مسلمان سترھویں صدی کے آخر سے لے کر بیسویں صدی کے آخر تک پورے تین سو سال سےسیاست کے محاذ پر مسلسل زور آزمائی کر رہے ہیں۔ اس طویل مدت میں ایک دن کے لیے  بھی انھوں نے یہ "غیر متوازن " طریقہ اختیار نہیں کیا کہ اپنی ساری طاقت صرف ذہنی بیداری کے محاذپر لگا دیں اور سیاست کے عملی محاذ کو خالی چھوڑ دیں۔ اس تین سو سالہ متوازن عمل کے باوجود ملت کی بربادی میں صرف اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ملت کا احیاء اب تک کسی بھی درجہ میں واقعہ نہ بن سکا۔ کیا یہ تجربہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے  کافی نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ۲۳ سالہ عمر ِنبوت میں مکمل طور پر تدریجی انداز میں عمل فرمایا۔ چنانچہ ابتدائی ۳ سال تک آپ پوری طرح سیاست اور جہاد کے میدان سے دور رہے۔ اس مدت میں آپ کی ساری کوشش اس امر پر مرتکز رہی کہ آپ لوگوں کے اندر ایمان کی اسپرٹ مکمل طور پر بیدار کر دیں۔ گویا نصف سے زیادہ مدت میں آپ نے عملی سیاست سے" صبر " کا طریقہ اختیار فرمایا نہ کہ اس میں داخل ہونے کا۔

موجودہ زمانے میں جاپان اس طریق کار کی ایک مثال ہے۔ ۱۹۴۵ کے بعد اس نے قومی حقوق کی سیاست کو یکسر ترک کر دیا اور صرف سائنسی تعلیم اور ٹکنکل ریسرچ کے میدان میں اپنی ساری توجہ لگا دی۔ حالات بتاتے ہیں کہ جاپان نے ۳۰ سالہ "غیر متوازن " محنت سے وہ کامیابی حاصل کر لی جو مسلمان ۳۰۰ سالہ" متوازن "محنت کے بعد بھی حاصل نہ کر سکے۔

ہندستان میں عیسائی فرقہ عملی سیاست سے بالکل الگ رہتا ہے۔ مگر تعلیم کے میدان میں وہ تمام فرقوں سے آگے ہے۔ مسلمان تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد مسلسل سیاست کے ہنگاموں میں مشغول رہے۔ اس کے باوجود، ایجوکیشن منسٹری کی رپورٹ کے مطابق، مسلمان سب سے زیادہ تعلیمی پسماندگی میں مبتلا ہیں۔ حتی کہ تعلیم کے میدان میں وہ ہر یجنوں سے بھی زیادہ پیچھے جاچکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں صحیح طریقہ تدریج کا ہے نہ کہ توازن کا۔ تجربہ اور اصول دونوں اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ ساری قوت ابتدائی تعمیر کے محاذ پر لگادی جائے۔ اس وقت ہم تاریخ کے آغاز میں ہیں، ہم تاریخ کے اختتام میں نہیں ہیں۔ اور جو لوگ تاریخ کے آغاز میں ہوں ان کے لیے  عمل کا اصول صرف ایک ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو الاقدم فالاقدم کہا گیا ہے۔ اسی کا دوسرا نام تدریج ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom