مسئلہ کا حل

ستمبر ۱۹۸۹ میں میں ایک بیرونی سفر پر تھا۔ اس سفر کے دوران میری ملاقات ایک شیعہ بزرگ محمد عباس کاظمی سے ہوئی۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷ کے انقلاب میں وہ لاہور چلے گئے اب وہ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے لاہور میں رہتے ہیں۔

 گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے برِ صغیر ہند کا ۱۹۴۷ سے پہلے کا زمانہ بھی دیکھا ہے، اور ۱۹۴۷ کے بعد کا بھی۔ یہ بتائیے کہ دونوں زمانوں میں آپ نے کیا فرق پایا۔ انھوں نے غم انگیز لہجہ میں جواب دیا ––––  بس یہ فرق ہے کہ غیر منقسم ہندستان میں ہندو اور مسلمان کے درمیان جھگڑے ہوتے تھے، اب پاکستان میں شیعہ اور سنّی کے درمیان وہ ہی جھگڑے ہو رہےہیں (الرسالہ مارچ ۱۹۹۰، صفحہ ۳۲ - ۳۳)

اسی نوعیت کا ایک شیعہ سنّی جھگڑا کراچی میں ۱۴ جولائی ۱۹۹۱ کو ہوا۔شیعہ فرقہ کا ایک جلوس سنّیوں کی مسجد کے سامنے سے گزرا۔ اس پر سنّیوں کو اعتراض ہوا۔ انھوں نے مطالبہ کیاکہ جلوس کی روٹ بدلی جائے۔ شیعہ لوگ روٹ بدلنے پر راضی نہیں ہوئے۔ اس پر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی جس میں پولیس کو مداخلت کرنی پڑی۔ مقابل کی تصویر (ٹائمس آف انڈیا ۱۶ جولائی ۱۹۹۱) میں پولیس سنّی فرقہ کے لوگوں پر لاٹھی چارج کر رہی ہے جوشیعہ جلوس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پاکستان اس لیے  بنوایا گیا تھا کہ غیر منقسم ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑے ہوتے تھے۔ اس لیے  مسلمانوں کے لیڈروں نے کہا کہ میں ایک خطہ چاہیے  جہاں سب مسلمان ہوں۔ تاکہ وہاں جھگڑے نہ ہوں اور ہم امن وسکون کے ساتھ رہ سکیں۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو معلوم ہوا کہ مسلم لینڈ میں بھی وہی تمام جھگڑے جاری ہیں جو صرف ہندولینڈکی خصوصیت سمجھے جاتے تھے۔

اصل یہ ہے کہ جھگڑے کا تعلق ہندو لینڈ اور مسلم لینڈ سے نہیں۔ جھگڑے کا تعلق جھگڑا کرنے والوں کے مزاج سے ہے۔ اگر لوگوں کے اندر تحمل کا مزاج ہو تو کہیں جھگڑا نہیں ہوگا۔ اور اگر تحمل کا مزاج نہ ہو تو ہر جگہ جھگڑا ہو گا، خواہ وہ کوئی بھی جگہ کیوں نہ ہو۔

زندگی خلافِ مزاج باتوں کو برداشت کرنے کا نام ہے۔ اس برداشت کے بغیر کہیں بھی امن وسکون کا ماحول نہیں بن سکتا۔ خاندان کے اندر بھی اس کی ضرورت ہے۔ بستی کے اندر بھی اور پورے ملک کے اندر بھی۔ ایک فرقہ کے سماج میں بھی اسی سے امن قائم ہوسکتا ہے اور کئی فرقہ کے سماج میں بھی۔

جہاں بھی کچھ انسان مل کر ر ہیں، خواہ وہ ایک مذہب اور کلچر کے ہوں یا کئی مذہب اور کلچر کے۔ وہاں لاز ماً  ایک دوسرے کے درمیان ٹکراؤ کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان مواقع کی پیدائش کو بند نہیں کیا جاسکتا، البتہ ان کو نقصان کی حد تک جانے سے روکا جاسکتا ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ جب ٹکراؤکی نوبت آئے تو اس کو حسنِ تدبیر سے دفع کرنے کی کوشش کی جائے۔ اعراض اور صبر کے ذریعہ اس کو اس کے ابتدائی مرحلہ میں ختم کر دیا جائے۔ اس کے سوا جو بھی صور تیں ہیں وہ سب مسئلہ کو بڑھانے کی صورتیں ہیں نہ کہ مسئلہ کو گھٹانے کی صورتیں۔

جو چیز غیر فطری ہو اس کو آپ کوشش کر کے ختم کر سکتے ہیں۔ مگر ایک فطری چیز کو ختم کرنا کسی حال میں ممکن نہیں۔ سماج کے اندر مختلف افراد اور گروہوں کے درمیان اختلاف کا پیش آنا عین فطری ہے، اس لیے  اس کو کسی بھی طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اس کو انگیز کیا جائے۔ اعراض اور صبر کی تدبیروں سے اس کو اپنے لیے  بے ضرر بنا دیا جائے۔

 تقسیم (۱۹۴۷) سے پہلے کے دور میں جلوس پر جھگڑے کا ایک واقعہ بمبئی میں ہوا۔ ہندوؤں  کا ایک جلوس با جابجاتا ہوا ایک مسجد کے سامنے سے گزرا۔ اس پر مسجد کے مسلمان متولّی نے اعتراض کیا۔ بات بڑھی۔ یہاں تک کہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ متولی نے انگریز عدالت کے سامنے اپنا یہ دعویٰ پیش کیا کہ ہندوؤں کو اس کی مسجد کے سامنے سے جلوس نکالنے سے روک دیا جائے۔ مقدمہ چلا۔بمبئی کے ایک مشہور مسلم رہنما نے اس کیس کی وکالت کی۔ ان کی وکالت کامیاب رہی۔ انگریز جج نے یہ فیصلہ دیا کہ مذکورہ مسجد کے سامنے عدالتی حکم کے تحت یہ بورڈلگا دیا جائے کہ اس کے سامنے ہندوؤں  کو جلوس نکالنے کی اجازت نہیں۔

مذکورہ مسلم رہنما اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان خوب مقبول ہوئے۔ ان کو مسلمان اپنا عظیم رہنما اور مسلم ملت کا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔مگریہ صرف نا سمجھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قیادت نہیں تھی۔ بلکہ برعکس رہنمائی تھی۔ مذکورہ رہنما اگر دانش مند ہوتے تو وہ مسلمانوں سے کہتے کہ جلوس کے مسئلہ کا حل اس کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کو برداشت کرنا ہے۔ اس قسم کی چیزیں ہر سماج میں جاری رہیں گی۔ حتی کہ خالص مسلم سماج میں بھی۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جائے نہ کہ بے فائدہ طور پر ان سے الجھا جائے۔

ایک بچہ نے پھول توڑا۔ اس کا ہاتھ کانٹے سے زخمی ہو گیا۔ وہ روتا ہوا اپنے باپ کے پاس آیا۔ اب یہ باپ کی نادانی ہوگی اگر وہ پھول کے درخت سے کانٹے کا وجود ختم کرنے کی مہم چلائے۔ اس کے برعکس اس کو چاہیے  کہ خود اپنے بیٹے سے کہے کہ اس دنیا میں ہر پھول کے ساتھ کا نٹا موجود رہے گا۔ اس لیے  تم کانٹے کے ساتھ جینا سیکھو نہ یہ کہ کانٹے کا وجو د مٹانے کی بے فائدہ کوشش کرو۔

 بمبئی کے واقعہ میں مسلم قیادت اگر مسلمانوں کو صحیح رہنمائی دیتی تو آج مسلمانوں کی تاریخ دوسری ہوتی۔مگر غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سو سال سے جلوس کے جھگڑوں میں مبتلا ہیں، ہندستان میں بھی اور اسی طرح پاکستان میں بھی۔ تعمیر کے بہترین امکانات کے درمیان وہ بے تعمیر حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom