براگمان کرنا
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے ایک مسلمان پر دوسرےمسلمان کا خون اور اس کی آبرو کو حرام کر دیا ہے اور یہ بھی حرام کیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کےبارے میں براگمان کرے (إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنَ الْمُسْلِمِ دَمَهُ وَعِرْضَهُ وَأَنْ يُظَنَّ بِهِ ظَنُّ السُّوءِ (تفسير القرطبي الجامع لأحكام القرآن،ج۱۶ص۲۳۲(
اس قسم کی ہدایات کا نتیجہ یہ تھا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب گمان قائم کرنے کے بارے میں بے حد حساس تھے۔ وہ اس معاملےمیں آخری حد تک احتیاط برتتے تھے کہ کسی کے بارے میں غلط گمان اپنے ذہن میں قائم کر لیں۔ حسن بصری تابعی نے بعد کے لوگوں سے کہا کہ پہلے ہم ایسے زمانے میں تھےکہ بدگمانی کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ اور آج بدگمانی اتنی ہلکی چیز بن گئی ہے کہ تم کسی کے بارے میں جو غلط رائے چاہو قائم کر لو۔كُنَّا فِي زَمَنٍ الظَّنُّ بِالنَّاسِ فِيهِ حَرَامٌ، وَأَنْتَ الْيَوْمَ فِي زَمَنِ اعْمَلْ وَاسْكُتْ وَظُنَّ فِي النَّاسِ مَا شِئْتَ(تفسير القرطبي الجامع لأحكام القرآن،ج۱۶ص۳۳۲)
بدگمانی اکثر اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ ایک واقعہ کو غلط رنگ دےدیا جاتا ہے۔ ایک بار حضرت سلمان فارسی اور ان کے دو ساتھیوں کو کھانے کی ضرورت پیش آئی۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ موجود نہ تھا۔ حضرت سلمان فارسی حضرت اسامہ کے پاس گئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خازن تھے۔ حضرت سلمان نے ان سے کھانا طلب کیا۔ مگر اتفاق سے اس وقت سب کھا ناختم ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ کوئی کھانے کی چیز انھیں نہ دے سکے۔ حضرت سلمان جب اپنے دونوں ساتھیوں کی طرف لوٹے اور ان کو قصہ بتا یا تو دونوں نے کہا کہ اسامہ کے پاس کھانا موجود تھا مگر انھوں نے بخل سے کام لیا۔(قَدْ كَانَ عِنْدَهُ وَلَكِنَّهُ بَخِلَ۔(تفسير القرطبي الجامع لأحكام القرآن،ج۱۶ص۳۳۱(
مذکورہ دونوں افراد اگر حضرت اسامہ کے انکاری جواب کو عذر پر محمول کرتے تو وہ بدگمانی میں نہ پڑتے۔ مگر انھوں نے ان کے جواب کو بخل سمجھا اس لیے وہ ایک صالح انسان کے بارے میں بدگمانی میں پڑ گئے۔ اس طرح کی بدگمانی اسلام میں سراسر حرام ہے۔ آدمی پر لازم ہے کہ اس طرح کے معاملات میں وہ اپنے بھائی کے بارے میں اچھی رائے قائم کرے ورنہ خاموش رہے۔اس کے سوا کوئی تیسرا رویہ اس کے لیے درست نہیں۔