نماز کی حقیقت
یہ عصر کی نماز تھی۔ امام نے نماز پوری کر کے سلام پھیرا، تھوڑی دیر بیٹھے اور اس کے بعد دعا کر کے اٹھ گئے۔ ایک مقتدی نے امام صاحب کو روکا۔ اور تضحیک کے انداز میں بولے :"عصر کی نیت کی تھی یا ظہر کی"۔ یہ سن کر تمام نمازی ہنس پڑے جو پہلے ہی سے امام صاحب کو عجیب معنی خیزنظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میں نے مذکورہ مقتدی سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ "عصر کے وقت تسبیح (فاطمہ) پڑھی جاتی ہے۔ مگر امام صاحب نے تسبیح پڑھے بغیر دعا کر لی اور اٹھ گئے"۔ خیریت یہ ہے کہ امام صاحب نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی کے ساتھ اپنے حجرہ میں چلے گئے۔ اگر انھوں نے کوئی تیز جواب دیا ہوتا تو یقیناً بات بڑھتی اور زبانی تنقید باقاعدہ ہاتھا پائی میں تبدیل ہو جاتی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آج کل نماز کا کیا حال ہے۔ وہ نماز کو صرف اس کے ڈھانچے کے اعتبار سے جانتے ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ کچھ لوگ "مسنون "ڈھانچہ کو نماز سمجھے ہوئے ہیں اور کچھ لوگوں نے مبتدعانہ طور پر اس میں کچھ غیر مسنون چیزوں کا اضافہ کر لیا ہے۔
نماز کا بلاشبہ ایک ڈھانچہ ہے۔ مگر نماز کی اصل حقیقت اس کی اندرونی اسپرٹ ہے، اور یہ اندرونی اسپرٹ خشوع ہے۔ حتی کہ اگر کسی کی نماز میں ظاہری ڈھانچہ ہو مگر اس میں خشوع کی کیفیت نہ پائی جائے تو ایسی نماز حدیث کے مطابق نمازہی نہیں۔ لا صلاة لمن لا يتخشَّعْ في صلاته۔(كنز العمال،حدیث نمبر 20088)
ڈھانچہ والی نماز اور خشوع والی نماز کی ایک پہچان یہ ہے کہ جو آدمی ڈھانچہ والی نماز پڑھے،اس کی نظر دوسرے کی نماز پر ہوتی ہے۔ اور جو آدمی خشوع والی نماز پڑھے اس کی نظر اپنی نماز پر۔ پہلی قسم کاآدمی دوسروں کی نماز میں "ٹکنکل" خامی نکال کر ان کے خلاف تقریر کرے گا۔ اور دوسری قسم کا آدمی خوداپنی نماز کی کمیوں کو سوچ کر چپ رہے گا۔ وہ اپنے احتساب میں اتنا زیادہ مشغول ہوگا کہ اس کو یہ فرصت ہی نہ ہوگی کہ وہ دوسروں کی نماز پر تبصرہ کرے۔
نماز اللہ کی یاد کا نام ہے، اور اللہ کی یاد کسی آدمی کے اندر جو کیفیت پیدا کرتی ہےاسی کو خشوع کہا گیا ہے۔