نصیحتِ لقمان
قرآن کی سورہ نمبر ۳۱ کا نام لقمان ہے۔ اس سورہ میں لقمان حکیم کا ذکر ہے اوران کی وہ نصیحت نقل کی گئی ہے جو انھوں نے غالباً اپنی آخر عمر میں اپنے بیٹے کو کی تھی۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
اور ہم نے لقمان کو حکمت عطافرمائی کہ اللہ کا شکر کرو، اور جو آدمی اللہ کاشکر کرے تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے۔ اور جو آدمی ناشکری کرے تو اللہ بے نیاز ہے، خوبیوں والا ہے۔ اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے بیٹے، اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
اور ہم نے انسان کو اس کی ماں اور باپ کے معاملہ میں تاکید کی۔ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا، اور دوبرس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا، کہ تو میراشکر کر اور اپنےوالدین کا۔میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جو تجھ کو معلوم نہیں تو تم ان کی بات کو نہ ماننا۔ اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤکرنا۔ اور تم اس آدمی کے راستہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو میرےپاس آنا ہے۔ پھر میں تم کو بتادوں گا جو کچھ تم کرتے رہے۔
لقمان نے کہا کہ اے میرے بیٹے، کوئی عمل اگر رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو، اللہ اس کو حاضر کر دے گا۔ بے شک اللہ باریک بیں ہے، باخبر ہے۔ اے میرے بیٹے، نماز قائم کرو، اچھے کام کی نصیحت کرو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تم کو پہنچے اس پر صبر کروہ بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور لوگوں سے بے رخی نہ کر، اور زمین میں اکٹر کرنہ چل بے شک اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر، بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے (لقمان: ۱۲ - ۱۹)
حضرت لقمان کی شخصیت کی تاریخی تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔ مفسرین کا عام خیال یہ ہے کہ وہ پیغمبر نہیں تھے۔ البتہ ایک صالح اور حکیم انسان تھے۔ ایک رائے کے مطابق، وہ سیاہ فام حبشی تھے اور ان کا زمانہ حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ پیغمبر پر ایمان لائے ہوئےتھے اور مومن و صادق تھے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ربانی حکمت بھی عطا فرمائی تھی۔
حکم یا حکمت سے مراد فہم اور بصیرت ہے۔ ایک ہے دین کی معلومات ہونا، دوسری چیز ہے دین کی معرفت ہونا۔ معلوماتی واقفیت کا تعلق ظاہری الفاظ سے ہوتا ہے۔ اور عارفانہ بصیرت کا تعلق گہری یافت سے۔ قرآن کے مطابق، حضرت لقمان نہ صرف دین کے مسائل اور احکام سے واقف تھے بلکہ وہ دین میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔ وہ معرفت کے درجہ میں خدا کے دین کو پائے ہوئے تھے۔ وہ دینِ خداوندی کو اس کی گہرائیوں کے اعتبار سے جانتے تھے۔
حضرت لقمان کو جو حکمت عطا ہوئی تھی، اس سے انھوں نے جو سب سے پہلا سبق پایا وہ شکرِ خداوندی تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ لقمان کو ہم نے یہ حکمت دی کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔
غیر حکیم آدمی چیزوں کو جیسا دیکھتا ہے ویسا ہی وہ ان کو مان لیتا ہے۔ اس لیے غیر حکیم آدمی کی نظر ہمیشہ چیزوں کے ظاہر پراور ان کے سطحی پہلوؤں تک محدود رہتی ہے۔ اس کے برعکس حکیم آدمی چیزوں پر غور کرتا ہے۔ اس طرح وہ چیزوں کی گہرائی تک پہنچتا ہے۔ وہ چیزوں کو ان کے اندر کی حقیقت کےاعتبار سے جان لیتا ہے۔
مثلاً اپنی ذات کے اعتبار سے دیکھیے۔ آدمی ایک زندہ وجود کی حیثیت سے زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ وہ طرح طرح کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ غیر حکیم آدمی اپنے اس وجود کو دیکھے گا تو اس کے اندر فخر اور ناز کی کیفیت پیدا ہوگی۔ حتی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنا پر گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے گا۔ مگر حکیم کا معاملہ اس سے مختلف ہوگا۔
حکیم آدمی اپنے وجود کو دیکھ کر یہ سوچے گا کہ میرا یہ وجود کہاں سے آگیا۔ میں خود تو اپنے آپ کو پیدا نہیں کر سکتا۔ پھر میں کیسے ایک مکمل انسان کی صورت میں دنیا میں موجود ہو گیا۔ یہ سوچ اس کو اس حقیقت تک پہنچائے گی کہ اس کا پیدا کرنے والا خدا ہے۔ یہ دریافت اس کو خدا کے آگے جھکا دے گی۔ وہ کہہ اٹھے گا کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے انسان بنا کر پیدا کیا۔ حالاں کہ میں خود اپنے آپ کوپیدا نہیں کر سکتا تھا۔
اسی طرح آدمی اپنے آپ کو ایک زمین پر پاتا ہے۔ یہ زمین ایک اتھاہ کائنات کے اندر ایک حیرت انگیز استثناء ہے۔وسیع کائنات میں یہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں انسان زندہ رہے اور اپنے لیے تمدن کی تعمیر کرے۔ اس زمین پر ضرورت کی ہر چیز انتہائی موزوں تناسب اور انتہائی صحیح مقدار میں موجود ہے۔ زمین اگر کائنات کے دوسرے اجسام، مثلاً چاند اور مریخ کی مانند ہو تو یہاں انسان کے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے۔
ایک غیر حکیم آدمی اس قیمتی دنیا کو صرف اس حیثیت سے جانے گا کہ وہ اس کے لیے ترقی کا شاندار میدان ہے۔ وہ دنیا کے مواقع کو استعمال کر کے اپنی زندگی کی تعمیر کرے گا اور سمجھے گا کہ یہ سب میری محنتوں کا نتیجہ ہے۔ مگر حکیم آدمی اس سوچ میں پڑ جائے گا کہ اتنی قیمتی دنیا کیسے ظہور میں آئی۔ انسان خود تو اپنے لیے ایسی مفید اور موافق دنیا نہیں بنا سکتا۔ پھرکس نے اس کو بنایا۔
یہ حکیم آدمی کے سوچنے کا طریقہ ہے۔ اور جو آدمی اس طرح سوچے، اس کو اس کی سوچ خالق کی دریافت تک پہنچا دے گی۔ وہ اپنے خالق کو دریافت کر کے اس کا شکر ادا کرے گا۔ وہ کہہ اٹھے گا کہ خدایا، یہ تیرا کیسا عجیب احسان ہے کہ تو نے میرے لیے ایک ایسی دنیا بنائی جہاں میری ضرورت اور ترقی کا ہر سامان انتہائی کامل صورت میں موجود ہے۔
اسی طرح ہر معاملہ میں غیرحکیم کی نگاہ سطحی پہلوؤں میں اٹک کر رہ جاتی ہے، اس لیے وہ ان سے صحیح سبق نہیں لے پاتا۔ مگر حکیم آدمی چیزوں کی گہرائی میں جاتا ہے۔ اس لیے اس کی نگاہ چیزوں کی گہرائی تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ شکر و سپاس کے جذبہ سے لبریز ہو جاتا ہے۔
شکر سے غافل آدمی اپنی اُس جگہ پر نہیں پہنچتا جو اس کی حقیقی جگہ ہے۔ اس کے برعکس شکر کرنے والا آدمی اپنے اصل مقام کو پا لیتا ہے۔ شکر کا مزاج آدمی کو اپنے رب کی پہچان بھی کر ادیتا ہے، اور اس کے ساتھ خود اپنی پہچان بھی۔
"اور لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جب کہ وہ اس کو وعظ کہہ رہے تھے " ––––– یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے جو باتیں کہیں، وہ وعظ کے انداز میں کہیں۔ وعظ سے مراد یہ ہے کہ بھلائی کی تلقین ایسے اسلوب میں کی جائے جو دل کو نرم کرنے والا ہو۔ هو التّذكير بالخير فيما يرقّ له القلب(المفردات في غريب القرآن،ص 876)۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ بات کو کسی نہ کسی طرح بس سنا دیا جائے۔ یہ صرف کہنا ہے، یہ وعظ و نصیحت نہیں ہے۔ وعظ اس کہنے کا نام ہے جس میں سنجیدگی ہو، در دمندی ہو، خیر خواہی ہو، نرم گفتاری ہو، دل کی تڑپ ہو، اصلاح کا سچاجذبہ ہو، وغیرہ۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے جو باتیں کہیں اس میں ان کا انداز صرف کہہ دینے کا نہیں تھا، بلکہ انھوں نے جو کچھ کہا، خالص وعظ و نصیحت کے انداز میں کہا۔ اس کے لیے انھوں نے "از دل خیزد بر دل ریزد "کا اسلوب اختیار کیا۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو پہلی نصیحت کی وہ یہ تھی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ شرک کی برائی تمام دوسری برائیوں کی جڑ ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کا واقعہ اصلادل کے اندر ہوتا ہے۔ اور پھر اس کی علامتیں اور اس کے مظا ہر خارجی زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں۔ شرک بلاشبہ شکرِ خداوندی کی ضد ہے۔ ایک شخص جس کے اندر اپنے رب کے لیے شکر کی کیفیت پیدا ہو چکی ہو، وہ کبھی اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کر سکتا۔ شرک سب سے بڑی ناشکری ہے۔
آدمی کمپیوٹر کی مانند نہیں ہے۔ اس کے اندر شعور ہے، اس کے اندر جذبات ہیں۔ ان خصوصیات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اندر خوف اور محبت کے جذبات پاتا ہے۔ اس کے اندر تعظیم اور تقدس کا احساس ابھرتا ہے۔ اس قسم کے جذبات جو انسان کے اندر پائے جاتے ہیں، ان کا مرکز اگر ایک خدا کو بنایا جائے تو یہی توحید ہے۔ اور اگر ان جذبات کا مرکز خدا کے سوا کوئی اور چیز بن جائے تو اسی کا نام شرک ہے۔ موحد کی زندگی کا رخ خدا کی طرف ہوتا ہے اور مشرک کی زندگی کا رخ غیرِ خدا کی طرف۔
حضرت لقمان نے کہا کہ" شرک سب سے بڑا ظلم ہے"۔ ظلم کا مطلب ہے –––––کسی چیز کو وہاں رکھنا جو اس کی جگہ نہ ہو (وضع الشيء في غير موضعه) انسان کے اندر کسی کو بڑا ماننے، کسی کو اپنا سب کچھ سمجھنے، کسی سے امید اور خوف کرنے کے جو لطیف احساسات ہیں، ان کو ایک خدا کے لیے وقف کیا جائے تو یہ گویا ان احساسات کو اپنے صحیح مقام پر رکھنا ہوگا۔ اور اگر ان احساسات کو کسی اور کے لیے وقف کیاجائے تو یہ گو یا ان احساسات کو غلط مقام پر رکھنا ہوگا، پہلا آدمی موحد ہے، اور دوسرا آدمی مشرک۔
اللہ نے انسان کو اس کے والدین کے معاملہ میں حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ اللہ کی شکر گزاری کے بعد انسان کے اوپر فرض ہے کہ وہ اپنے ماں اور باپ کے حقوق ادا کرے۔ ماں اور باپ کے حقوق میں بالقصد کوتا ہی کسی حال میں جائز نہیں۔ خدا حقیقی معنوں میں انسان کا پالنے والا ہے۔ اور ماں باپ مجازی معنوں میں انسان کی پرورش کرنے والے۔
خدائی شریعتوں میں ماں باپ کی خدمت کو بہت ضروری بتایا گیا ہے۔ حقوق کی ادائگی کے اعتبار سےان کا درجہ خدا کے بعد ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان، تم میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا حق اداکرو۔ دونوں کو ایک ساتھ بیان فرمایا۔
اللہ کی حیثیت منعم ِحقیقی کی ہے۔ مگر اللہ کےبعد کسی انسان کے ساتھ سب سے زیادہ احسان کرنے والے اس کے والدین ہوتے ہیں۔ خاص طور پر آدمی کی ماں بچپن میں کئی سال تک اس کو پالنے اور پرورش کرنے کے لیے جو مصیبت اٹھاتی ہے، وہ کسی بھی آدمی کے سلوک سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے باپ اور خاص طور پر ماں کا حق آدمی کے اوپر بہت زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ کی طرف سے اگر آدمی کو شکایت پیدا ہوتب بھی ان کے حقوق میں کمی کرنے کی اجازت نہیں۔
اس عام حکم میں صرف ایک استثنا ءہے،وہ یہ کہ اگر ماں باپ کا حکم خدا کے حکم سے ٹکرا جائے تو اس وقت خدا کے حکم کو لے لینا ہے اور ماں باپ کے حکم کو چھوڑ دینا ہے۔ تاہم اس انتہائی موقع پر بھی صرف متعین معاملہ کی حد تک ماں باپ کی خلاف ورزی کرنے کا حکم ہے۔ عام انسانی بر تاؤ اور خدمت کے معاملہ میں بدستور ماں باپ کے ساتھ و ہی بہتر سلوک کرنا ہے جس کے وہ ماں باپ ہونے کی حیثیت سے مستحق ہیں۔ دینی فرائض کے معاملہ میں ان کی حکم عدولی کی جاسکتی ہے مگر دنیوی تعلقات کے معاملہ میں ان کے ساتھ معروف طریقے کے مطابق ہی برتاؤ کیا جائے گا۔
"اور پیروی صرف ان کے طریقہ کی کرو جو میری طرف متوجہ ہیں۔ آخر کار سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پھر میں تم کو آگاہ کر دوں گا جو کچھ تم دنیا میں کر رہے تھے " –––– یہ پیروی کے سلسلے میں نہایت اصولی بات ہے۔
عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ باپ دادا یا قوم کے لوگ جو کچھ کرتے ہیں، بس اسی کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ آدمی جانچے اور پرکھے بغیر، جو کچھ اپنے بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے، اسی کو خود بھی کرنے لگتا ہے۔ یہ گمرا ہی کا طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ یہ گمراہی کوئی سادہ گمرا ہی نہیں ہے۔ آخرت میں اس پر سخت پکڑ ہونے والی ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی سمجھ کو استعمال کرے۔ وہ ان لوگوں کا پیرو بنے جو سچی دلیل پر ہیں۔ وہ ان کی پیروی نہ کرے جو عصبیت کی بنیاد پر ایک راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتے ہیں۔
آدمی کے سامنے ہمیشہ دو قسم کے نمونے ہوتے ہیں۔ ایک وہ لوگ جواللہ کی طرف متوجہ ہوں۔ جواللہ کی طرف رخ کر کے اپنی زندگی کا سفر طے کر رہے ہوں۔ دوسرے وہ لوگ جو اللہ سے منحرف ہوں۔ جو اللہ کی ہدایت سے بے پروا ہو کر خود ساختہ رخ پر چل رہے ہوں۔ پہلا گر وہ حق پر ہے اور دوسرا گروہ ناحق پر۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے گروہ کے راستے پر چلے، خواہ وہ اس کے غیر ہوں۔ وہ دوسرے گروہ کا نمونہ اختیارنہ کرے، خواہ وہ اس کے اپنے لوگ ہوں۔ خدا تقلیدِ حق کو پسند کرتا ہے نہ کہ تقلیدِر جال کو۔
اس معاملہ میں حق پرستی کا طریقہ کوئی آسان طریقہ نہیں۔ آدمی جب خالص حق کو اپنا رہنما بناتا ہے تو اس کو لوگوں کی طرف سے بہت سی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ مثلا ًیہ کہ تم نے اپنے اکابر کے راستہ کو چھوڑ دیا۔ تم اپنی قوم کے مسلک سے دور ہو گئے۔ مگر آدمی کو اس قسم کی باتوں کی پروا نہیں کرنا چاہیے۔ آخر کار وہ وقت آنے والا ہے جبکہ خدا تمام حقیقتوں کو ظاہر کر دے۔ اس دن حق پرست لوگ سرخرو ہوں گے، اور باطل کلام بولنے والی تمام زبانیں بند ہو جائیں گی۔ اس دن نہ ان کے پاس الفاظ ہوں گے کہ وہ بولیں اور نہ کوئی سننے والا ہو گا جو ان کی بات کو سنے۔
"کوئی عمل اگر رائی کے دانہ کے برابر ہواور وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، پھر بھی اللہ اس کو حاضر کر ے گا، اللہ باریک بیں ہے، خبردار ہے۔"
موجودہ دنیا میں آدمی مختلف حالات کے درمیان ہوتا ہے۔ کبھی وہ بظاہر ایک چھو ٹا عمل کرتا ہے اور کبھی بڑا عمل۔ کبھی وہ چھپے ہوئے مقام پر ہوتا ہے اور کبھی کھلے ہوئے مقام پر۔ کبھی وہ دور ہوتا ہے اور کبھی قریب۔ اس بنا پر آدمی اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ خدا کو اتنے مختلف احوال کی خبر نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ آدمی کی بھول ہے۔ خدا کا خدا ہونا ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر چھوٹے اور بڑے اور ہر کھلےاور چھپے عمل کو جانے۔ وہ ہر نوعیت کے عمل سے پوری طرح باخبر ہو۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر آن اپنے آپ کو اللہ کی نگرانی میں سمجھے۔ وہ اس یقین کے ساتھ دنیا میں رہے کہ اللہ اس کو پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ جن لوگوں کے دل میں یہ احساس بیٹھ جائے، ان کی پوری زندگی احتیاط اور ذمہ داری کی زندگی بن جائے گی۔ وہ بولیں گے تو اس احساس کے ساتھ بولیں گے کہ خدا ان کی بات کو سن رہا ہے۔ اور کچھ کریں گے تو یہ سوچتے ہوئے کریں گے کہ خدا ان کو ہر جگہ اور ہرلمحہ دیکھ رہا ہے۔
پھر فرمایا کہ نماز قائم کرو––––– آدمی کو جب اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس حقیقت کو دریافت کرتا ہے کہ اللہ ہر لمحہ اس کی نگرانی کر رہا ہے اور آخر کار اس کا حساب لینے والا ہے، توفوراً اس کے اندر عبدیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے وہ اللہ کے آگے اعتراف عجز کے طورپر گر پڑتا ہے۔ اسی کا نام نماز ہے۔ نماز کی حقیقت اللہ کی بڑائی کو مان کر اس کے آگے اپنے آپ کو چھوٹا کر لینا ہے۔یہ کیفیت آدمی کے دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور نماز اس کیفیت کو خارجی صورت میں متشکل کرتی ہے۔
پھر فرمایا کہ لوگوں کو معروف کا حکم دو اور انہیں منکر سے روکو، اور جو مصیبت تم کو پہنچے اس پر صبر کرو۔ یہ بے شک ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
معروف سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو پسندیدہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ کمزوروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔ معاملات میں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا، لوگوں کے درمیان بھائی اور خیر خواہ کی طرح رہنا۔ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کر نا جو آدمی چاہتا ہے کہ خود اس کے ساتھ کیا جائے۔
منکر سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو اخلاقی اعتبار سے نا پسندیدہ سمجھی جائیں۔ مثلاً دوسروں کاحق ادا نہ کرنا۔ لوگوں کے ساتھ ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرنا، عہد پورانہ کرنا، فخروغرور یا کینہ و انتقام کی روش پر چلنا، غصب اور خیانت کو اپنے لیے جائز کر لینا۔ وغیرہ
مومن ایک با اصول انسان ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان اصول پسند انسان کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ اسی اصول پسندی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ مصالحت آمیز رویہ اختیار نہیں کرپاتا۔ وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ کسی کو وہ غلط کام کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کو ٹوکتا ہے اور اس کو صحیح کام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ حق پر عمل کرنے کے ساتھ حق کا اعلان بھی کرتا ہے۔ اسکے لیے یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ بھلائی اور برائی کے معاملہ میں غیر جانب دار بن کر رہ سکے۔
اس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کے لیے صبر بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں مختلف اسباب سے ایسا ہوتا ہے کہ ناصح کو اپنے مخاطب کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے۔ کبھی اس کی روک ٹوک کی وجہ سے لوگوں میں غصہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں اگر ناصح ردِ عمل کا طریقہ اختیار کرے تو اس کے اور مخاطب کے درمیان نزاع کا ماحول قائم ہو جائے گا، اور نزاع کے ماحول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام مؤثر طور پر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
دعوت و اصلاح کا کام کوئی چیخ پکار کا کام نہیں۔ یہ بے حد سنجیدہ کام ہے۔ اس کو کرنے کے لیے آدمی کو عام اخلاقی سطح سے اوپر اٹھنا پڑتا ہے۔ اس کو وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو نفع و نقصان اور تعریف و تنقید اور موافقت و مخالفت سے بلند ہو کر کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔
"اور لوگوں کے ساتھ بے رخی نہ کر اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اللہ کسی اکڑنے والے اورفخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔"
آدمی کو جب کوئی ایسی چیز مل جائے جس میں بظا ہر وہ دوسروں سے زیادہ دکھائی دیتا ہو۔ مثلاً صحت، مال، عہدہ، طاقت، خاندانی شرف، وغیرہ۔ تو ایسے موقع پر اس کے اندر فخر اور اکڑ کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے وہ دوسروں کے ساتھ تکبّر کا معاملہ کرنے لگتا ہے۔ ایسی روش بہت بڑا جرم ہے۔ وہ کسی حال میں اللہ کو پسند نہیں۔
آدمی کو کوئی چیز کم ملے یا زیادہ، دونوں ہی اللہ کی طرف سے ہے۔ دونوں ہی امتحان کا پرچہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ دونوں حالتوں میں وہ اپنی ساری توجہ اس پر لگائے کہ وہ اللہ کی آزمائش میں پورا اتر سکے، نہ یہ کہ کم ملے تو پست ہمت ہو جائے اور زیادہ ملے تو گھمنڈ اور برتری میں مبتلا ہو جائے۔ جو آدمی زیادہ پاکر فخر اور اکڑ میں مبتلا ہو جائے وہ بندوں کے سامنے بڑا بننے کی کوشش میں خدا کی نظرمیں اپنے کو چھوٹا اور حقیر بنالیتا ہے، اور جو آدمی خدا کی نظر میں حقیر ہو جائے اس کو پھر کوئی بڑائی ملنے والی نہیں۔
"اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر۔ بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔"
"اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر" یہاں ظاہری کیفیت کا لفظ بول کر باطنی کیفیت کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ آدمی کو جب کوئی چیز مل جائے۔ مثلاً صحت، طاقت، دولت، عہده، اقتدار،وغیرہ تو اس کے مزاج میں بڑائی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا اثر اس کی چال سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ظاہری چیزوں میں اس کو کم حصہ ملے، وہ کسی نقصان سے دوچار ہو جائے تو اس کی چال میں پست ہمتی اور احساس کمتری کا انداز دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ دونوں ہی چیزیں غلط ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اعتدال پر قائم رہے۔ اس کو کچھ ملے تو وہ فخر والی چال نہ چلے، اور اگر اس سے کچھ کھو جائے تو وہ مایوسی کی چال نہ اختیار کرے۔
اسی طرح انسان کو گدھے کی مانندنہیں ہونا چاہیے ۔ گدھا صرف ایک قسم کی آواز نکال سکتا ہے۔ وہ جب بھی بولے گا، کرخت اور بھدّی آواز ہی بولے گا۔ لیکن انسان دونوں قسم کی آواز اپنے منہ سے نکالنے پر قادر ہے۔ سخت آواز بھی اور نرم آواز بھی۔ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے تاکہ وہ اس کو آزمائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کو یہ خصوصی کریڈٹ دینا چاہتا ہے کہ اس نے خود اپنے آزادانہ فیصلہ کے تحت کڑی آواز کا طریقہ چھوڑ دیا۔ اور صرف نرم آواز اپنے منہ سے نکالی۔ جو لوگ اپنے ملے ہوئے اختیار کا اس طرح صحیح استعمال کریں وہ اللہ کے یہاں بہت بڑا انعام پائیں گے۔
خلاصۂ کلام
قرآن میں حضرت لقمان کا حوالہ جس طرح دیا گیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک، لقمان کی حیثیت ایک مثالی باپ کی ہے۔ ایک باپ کے جذبات اپنے بیٹے کے بارے میں کیا ہونے چاہئیں، اس کا بہترین نمونہ حضرت لقمان کی زندگی میں ملتا ہے۔
حضرت لقمان اپنے بیٹے سے نہ ذاتی حقوق کی کوئی بات کہتے اور نہ مادی یا دنیوی مفاد کے بارے میں اس کو کوئی مشورہ دیتے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں، تمام ترحق و صداقت کے بارے میں کہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے سے ناصحانہ انداز میں کلام کرتے ہوئے اس کو توحید کی وصیت کی، انھوں نے اس کو اللہ کے سامنے جواب دہی کی یاد دلائی۔ انھوں نے اس کو اللہ کی عبادت اورعملِ خیر کی تلقین کی۔ انھوں نے اس کو تاکید کی کہ دین کی راہ میں خواہ مشکلات و مصائب پیش آئیں، تم کو ہر حال میں صراط ِمستقیم پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ کسی حال میں اس سے ہٹنا نہیں چاہیے۔
پھر حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تاکید کی کہ لوگوں کے درمیان وہ اچھے اخلاق کے ساتھ رہے۔ وہ تواضع اور اعتدال کی روش اختیار کرے۔ اس کی روح میں عبدیت اس طرح شامل ہو جائے کہ اس کا اثر اس کے جسم پر اور اس کے اعضاء و جوارح پر ظاہر ہونے لگے۔ وہ دنیا میں انسان بن کر رہے، وہ گدھے کی مانند نہ ہو جائے۔
" گدھے کی طرح نہ بولو، کیوں کہ گدھے کی آواز سب سے بری آواز ہے" ––––– حضرت لقمان کے اس قول میں بظا ہر صرف گدھے کی آواز کا ذکر ہے۔ مگر آواز کا لفظ یہاں حصر کے طور پر نہیں بلکہ علامت کے طور پر ہے۔ اس کا پورا مطلب یہ ہے کہ تم دنیا میں انسان بن کر رہو، تم گدھےبن کر نہ رہ ہو۔ تم کو اوصافِ انسانی کا پیکر ہونا چاہیے نہ کہ اوصاف ِحیوانی کا پیکر۔
بیٹا کسی آدمی کے لیے اللہ کی ایک نعمت ہے۔ بلکہ وہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ کوئی شخص خود سے اپنے لیے ایک بیٹا پیدا نہیں کر سکتا۔ یہ صرف اللہ ہے جو کسی کو بیٹا جیسی قیمتی چیز عنایت فرماتا ہے۔ کارخانۂ قدرت کے سوا کہیں اور سے ایک بیٹے کی تخلیق ممکن نہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ جب اس کو اولا دملے تو اس کو تمام تر اللہ کا عطیہ سمجھے۔ اس عطیہ کی شکر گزاری میں وہ ہمہ تن اللہ کا فرماں بردار بندہ بن جائے اور اپنی اولاد کے لیے بھی یہی چاہے کہ وہ اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں زندگی گزارے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسا باپ بنے جس کی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ہو کہ اس کا بیٹا صحیح معنوں میں اللہ والا بن کر دنیا میں رہے، وہ اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ وہ پوری طرح اللہ کا عبادت گزار بن جائے۔ وہ لوگوں کا خیر خواہ ہو۔ وہ تمام بڑوں کے ساتھ اپنے بھائی جیسا سلوک کرے اور تمام چھوٹوں سے وہ معاملہ کرے جو وہ اپنی اولاد کے ساتھ کرتا ہے۔
اللہ سے تعلق جب صحیح معنوں میں پیدا ہوتا ہے تو وہ آدمی سے اس کی انا کو چھین لیتا ہے۔ اس کے بعد اس کی سرکشی ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ وہ یک طرفہ طور پرلوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے لگتا ہے۔ لوگ اس کو تکلیف پہنچائیں تب بھی وہ لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ لوگوں کے منفی رویہ کے باوجود وہ ان کے ساتھ مثبت رویہ کے اصول پر قائم رہتا ہے۔
ایسا آدمی ہر معاملہ میں اللہ کی پسند کو اپنا ر ہنما بنا لیتا ہے نہ کہ ذاتی پسند کو۔ وہ ہر ایک کے ساتھ خدا کے مقرر کیے ہوئے اصول کے تحت معاملہ کرتا ہے نہ کہ اپنے نفس سے اٹھنے والی خواہشوں کے تحت۔