سفرپٹنہ ۳
ایک صاحب نے کہا کہ میں بہت عرصہ سے الرسالہ مشن سے وابستہ ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ الرسالہ سے اختلاف کرنے والوں کے پاس الرسالہ کے خلاف کوئی ٹھوس بات نہیں۔ البتہ الرسالہ کی برداشت کی پالیسی پر بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہر آدمی اپنے ذاتی مفاد کے معاملہ میں برداشت ہی کو بہترین حل کے طور پر اختیار کئے ہوئے ہے۔ مگر ملت کے مسائل کا معاملہ ہو تو وہ برداشت کی پالیسی کو بزدلی کہہ کر رد کر دیتا ہے۔ آخر ذاتی پالیسی اور ملی پالیسی میں اس تضاد کا سبب کیا ہے۔
میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ذاتی معاملہ میں سنجیدہ ہیں مگر ملت کے معاملہ میں وہ سنجیدہ نہیں۔ اس سے یہ فرق پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ جب کوئی ذاتی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ان کی توجہ مسئلہ کے حل کی طرف چلی جاتی ہے۔ اور جب ملت (مسلمان بمقابلہ ہندو)کا مسئلہ ہو تو وہ فور اً جذباتی ہو جاتے ہیں اور اپنے اور غیر کے مزاج کے تحت سوچنے لگتے ہیں۔ ذاتی معاملہ میں سنجیدہ سوچ ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ مگر ملت کا معاملہ ہو تو اپنی برتری کا احساس ان کا رہنما بن جاتا ہے۔ ذاتی معاملہ میں ان کا مقصود مسئلہ کو حل کرنا ہوتا ہے اور ملت کے معاملہ میں صرف اپنے وقار کو بچانا یا اپنی برتری کو قائم کرنا۔ مسلمان اگر ایسا کریں کہ جس طرح ذاتی معاملہ میں وہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں اسی طرح ملت (ہندو مسلم مسئلہ) کے معاملہ میں بھی وہ عملی حل کو اہمیت دینے لگیں تو اس کے بعدان کی دو عملی یکسر ختم ہو جائے گی۔
میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ وہ چیز جس کو صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے وہ عقیدہ ٔتوحید کی دَین ہے جو رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعہ دنیا کو ملا۔ صنعتی انقلاب فطرت کی تسخیر کانتیجہ ہے۔ شرک کے عقیدہ کے تحت انسان فطرت کو مقدس سمجھ کر اس کا پرستار بنا ہوا تھا۔ توحید نے فطرت کو پرستاری کے مقام سے ہٹا دیا، اس کے بعد ہی فطرت کو مسخر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آخر کار جدید صنعتی انقلاب تک پہنچا۔ اس کے بارے میں ایک صاحب نے فرمایا کہ تو حید کا عقیدہ تو تمام پیغمبروں نے پیش کیا تھا، پھر صنعتی انقلاب پچھلے پیغمبروں کے زمانہ میں کیوں نہیں آیا، وہ بعد کو کیوں آیا۔
میں نے کہا کہ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ پچھلے پیغمبروں کے زمانہ میں توحید کا عقیدہ صرف فکری تحریک کے مرحلہ میں تھا، وہ عملی انقلاب کے مرحلہ تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے توحید کو فکری دور سے نکال کر عالمی انقلاب کے دور میں پہنچا دیا۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی فکر اسی وقت عمومی تبدیلی لاسکتا ہے جب کہ وہ نظریہ نہ رہے بلکہ انقلاب بن جائے۔
ایک صاحب نے کہا کہ اس وقت مسلم دنیا میں بہت سی اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں آپ اپنے اور ان کے درمیان کیا فرق سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان مختلف تحریکوں کو وسیع تقسیم (broad division) میں دو قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو اسلام کو دعوت و تبلیغ کے مشن کے طور پر لے کر اٹھی ہیں۔ دوسری وہ جو سیاسی انقلاب کے مقصد کے تحت کام کر رہی ہیں۔ ایک کانشانہ اگر" دعوتی اسلام "ہے۔ تو دوسرے کا نشانہ" سیاسی اسلام"۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی تحریک صحیح اسلامی تحریک ہے جو "دعوتی اسلام "کے لیے اٹھے۔" سیاسی اسلام "کو لے کر اٹھنے والوں کا کیس صراط مستقیم سے انحراف (deviation) کا کیس ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ اتباعِ سبل ہے نہ کہ اتباعِ صراط۔
یہ اس معاملہ کا نظری پہلو ہے۔ اسی کے ساتھ اس کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ دعوتی اسلام کی موجودہ تحریک زیادہ تر "فضائل "کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے، جب کہ سیاسی یا انقلابی اسلام کی تحریک" دلائل "کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دعوتی اسلام کے مشن کی صحت کے باوجود امت کا انٹلکچول طبقہ (intellectual class) ابھی تک اس سے جڑ نہ سکا۔
یہ طبقہ جس کو خواص کا طبقہ کہا جاسکتا ہے، وہ اپنی ذہنی ساخت کی وجہ سے بات کو دلائل کے اسلوب میں سمجھنا چاہتا ہے۔ مگر دعوتی اسلام کے حاملین کا موجودہ انداز ِخطاب ان کے دلائل پسند مزاج کو مطمئن نہیں کر پاتا۔ اسی بنا پر آج یہ صورت حال ہے کہ امت کے طبقۂ خواص کا بیشتر حصہ سیاسی اسلام سے قریب اور دعوتی اسلام سے دور ہے۔
الرسالہ مشن کا خاص مقصد "دعوتی اسلام" کو دلائل کی بنیاد پر کھڑا کر نا ہے تا کہ امت کا ذہین اور با شعور طبقہ دعوتی اسلام کی اہمیت کو سمجھے اور اپنے آپ کو اس مہم میں لگائے۔ یہ انتہائی ضروری ہے۔کیوں کہ امت کا طبقۂ خواص جب تک دعوتی مشن میں نہ لگے، صرف طبقۂ عوام کی بنیاد پر کوئی گہری تحریک برپا نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ کوئی بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
"دعوتی اسلام"کے موجودہ طریقہ کے ذریعہ محدود معنوں میں عوام کے اندر کچھ اصلاح کا کام کیا جاسکتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ اسلام کی از سرِ نو تاریخ بنانے کا ہے جس کو تجدید ِدین کہا جاتا ہے۔ اور حقیقی تجدید دین اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وقت کے اہلِ فکر اور اہل ِعلم کو دعوتی اسلام کا حامی نہ بنایا جائے۔
مقالات اور سوال و جواب کے بعد میری تفصیلی تقریر ہوئی۔ میں نے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمپوزیم گویا میرے خواب کی تعمیر ہے۔ پندرہ سال پہلے الرسالہ کے نام پر سمپوزیم کیا جاتا تو شاید چند آدمی بھی جمع نہ ہوتے۔ کیوں کہ اس وقت الرسالہ ایک غیر معروف لفظ تھا۔ آج الرسالہ اور اس کا مشن ایک معروف عام لفظ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "الرسالہ سمپوزیم " کو اتنی کامیابی کے ساتھ منعقد کرناممکن ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور میں اپنی طرف سے اور آپ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
پھر میں نے کہا کہ آج کی ایک خاتون مقالہ نگار انشو مترا چو دھری نے اپنے مقالہ میں کہا ہے کہ الرسالہ کا مقصد کرکٹ تھنکنگ (correct thinking) پیدا کرنا ہے۔ یہ الرسالہ کے مشن کی صحیح ترجمانی ہے۔ ہمارا خاص مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے اندر صحیح سوچ پیدا ہو۔ وہ مسائل کے بارے میں صحیح زاویہ سے رائے قائم کریں اور فطرت کے سچے اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کریں۔
میں نے کہا کہ مثال کے طور پر اس عام مسئلہ کو لیجیے جو تمام لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ یعنی فرقہ وارانہ مسئلہ۔ بہت سے لوگ اس مسئلہ کو ایک فرقے کے اوپر دوسرے فرقے کا تعصب اور زیادتی سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ کرکٹ تھنکنگ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تعصب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کا چیلنج ہے۔ اور یہ چیلنج ہمیشہ باقی رہے گا۔
قرآن اور تاریخ کی تفصیلات دیتے ہوئے میں نے کہا کہ اس دنیا کو بنانے والے نے اس کا نظام مقابلہ اور چیلنج کی بنیاد پر قائم کیا ہے۔ چیلنج ترقی کا زینہ ہے۔ چیلنج سے صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔ وہ افراد اور قوموں کو معمولی حالت سے اٹھا کر غیر معمولی حالت کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم تعصب اور امتیاز کے الفاظ کو اپنی ڈکشنری سے نکال دیں۔ ہم اپنے مسائل کو چیلنج کی حیثیت سے دیکھیں۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور چوائس نہیں۔ کیوں کہ زندگی کا یہ مقابلاتی نظام خود خالق نےقائم کیا ہے۔ اور ہم کسی بھی حال میں اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔
غلط سوچ ہو تو آدمی کو زندگی میں صرف مشکلیں ہی مشکلیں دکھائی دیں گی۔ لیکن اگر صحیح سوچ ہو تو آدمی مواقع کو دیکھ لے گا اور ان کو استعمال کر کے آگے بڑھ جائے گا (یہ تقریر ان شاء اللہ مرتب کر کے مقالے کی صورت میں شائع کر دی جائے گی)
میری تقریر کے بعد کنوینر مسٹرایم ٹی خان نے چند کلمات کہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے اس اجتماع میں مسلمان بھی ہیں، اور ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الرسالہ مشن کوئی فرقہ وارانہ مشن نہیں ہے۔ وہ مین کا ئنڈ کے لیے اور پوری انسانی برادری کے لیے ہے۔ وسیع ہال کی تمام سیٹیں بھری ہوئی تھیں۔ بہت سے لوگوں کو کھڑا ہونا پڑا۔ وہ تقریباً چار گھنٹے تک کھڑے ہو کر تمام کارروائی سنتے رہے۔ مسٹر خان نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : آپ کی اسٹینڈنگ پوزیشن ہمارے لیے آوٹ اسٹینڈنگ ریمائنڈر ہے۔ آئندہ ہم ان شاء اللہ اس کا خیال رکھیں گے۔
اس کے بعد صد ر جلسہ ڈاکٹر شری نو اس کھڑے ہوئے اور اپنی اختتامی تقریر کی۔ انھوں نے اپنی برجستہ تقریر ان الفاظ کے ساتھ شروع کی : آپ بسو اس کیجیے۔ میں نے خود الرسالہ پڑھا ہے۔ اتنی بڑھیا کتاب آج ہمارے یہاں کوئی اور اپلبدھ نہیں ہے۔ چاروں طرف جو اندھیار اچھایا ہے اس میں ایک چاند ہی نہیں نکلا بلکہ ایک سورج نکل آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری چیلنج والی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ سڑک بالکل شیشہ کی طرح چکنی ہو تو اس پر گاڑی نہیں چلے گی۔ سڑک پر فر کشن(friction) ہونا چاہیے، تبھی گاڑی چل سکتی ہے۔ یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔
آخر میں جناب سید مشہدی صاحب نے ووٹ آف تھینکس (اظہار تشکر) پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا یہ اجتماع ایک تعمیری اجتماع تھا۔ مزید اس میں "سوال وجواب "کے وقفہ کے دوران یہ ایک بہت اچھی چیز سامنے آئی کہ ہمارا نوجوان طبقہ اپنے بزرگوں سے سوال کرنے کی جرات کر رہا ہے۔ یہ الرسالہ کے ذریعہ بہت اچھی سیکھ ہمارے نوجوانوں کو ملی ہے۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے جس ہال میں یہ اجتماع ہوا، اس کے ذمہ داروں نے الرسالہ سمپوزیم کے سلسلے میں اپنا مکمل تعاون دیا۔ ادارے کے صدر ڈاکٹر عبد الحئی صاحب نے سمپوزیم کو لائبریری فنکشننگ کا جزء قرار دیا۔ انھوں نے ہدایت جاری کی کہ اس سمپوزیم کولائبریری کے کولیبریشن میں ہونے والااجتماع سمجھا جائے۔ انھوں نے مذکورہ تاریخ کو آدھے دن کے لیے لائبریری بند کر دی تاکہ سمپوزیم کی کارروائی بآسانی جاری رہ سکے۔
لائبریرین ڈاکٹر محمد نظام صاحب اور ان کے اسٹاف کے دوسرے ممبروں کا بھر پور تعاون سمپوزیم کے منتظمین کو حاصل رہا۔ انھوں نے کھلے دل سے اس کے حسنِ انتظام کا اعتراف کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا اجتماع اب تک لائبریری ہال میں کوئی نہیں ہوا تھا۔ یہ سمپوزیم نہ صرف پریز ور دی ہے بلکہ وہ ریکارڈور دی بھی ہے۔
سمپوزیم کے منتظمین نے ہال کو "الرسالہ اور ینٹڈ ہال "بنادیا تھا۔ ہال میں چاروں طرف الرسالہ کے صفحہ ٔاول کے اقوال اردو، ہندی اور انگریزی میں دکھائی دے رہے تھے۔ وہ جلی حرفوں میں لکھ کر دیواروں پر لگائے گئے تھے۔ مثلاً یہ قول کہ ––––– کوئی آدمی کسی کا چراغ نہیں بجھاتا، چراغ کے اندر تیل کی کمی چراغ کو بجھا دیتی ہے، وغیرہ۔ اس طرح ہال میں ہر طرف الرسالہ کا ماحول قائم ہوگیا تھا۔
میں نے ایک صاحب سے کہا کہ سولہویں اور سترہویں صدی میں جب یورپ میں سائنس کا رواج ہوا تو سائنس لوگوں کے درمیان فیشن کی طرح پھیلنے لگی۔ ہر گھر گویا ایک تجربہ گاہ بن گیا جہاں چھوٹے اور بڑے لوگ طرح طرح کے سائنسی تجربات میں مصروف رہتے تھے۔ ہر طرف سائنس کا چرچا پھیل گیا۔ یہاں تک کہ وہ واقعہ پیش آیا جس کو سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ الرسالہ کا مشن بھی اسی طرح گھر گھر اور بستی بستی میں پھیل جائے۔ لوگ اس کے بارے میں سو چیں، اس کے اوپر مذاکرے کریں، اس کے انداز پر مطالعہ کریں۔ اس کی بنیاد پر اجتماعات کریں۔ الرسالہ کی تحریک ایک لہر کی صورت اختیار کر لے۔ یہ لہر بڑھتی رہے۔ یہاں تک کہ پوری ملت کے اندر ایک مکمل فکری انقلاب آجائے۔
پٹنہ کے ساتھیوں نے یہ طے کیا کہ وہ "الرسالہ لائبریری" قائم کریں گے۔ ماہانہ اجتماع کا سلسلہ شروع کریں گے۔ اسٹڈی سرکل کی صورت میں کام کو آگے بڑھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مددفرمائے۔
۲۹جولائی کی شام کو دوبارہ مگدھ اکسپریس سے واپسی ہوئی۔ ٹرین میں رات کو سورہا تھا کہ خواب دیکھا کہ میں کسی مکان کی چھت پر ہوں اور وہاں تیز زلزلہ آگیا ہے۔ دیر تک پورا مکان ہلتا رہا۔ میں مکان کی چھت پر کھڑا ہوا یہ کہہ رہا ہوں کہ یا اللہ، کیا ہونے والا ہے۔
یہ محض خواب تھا، کوئی حقیقی زلزلہ نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوا۔ سمجھ میں آیا کہ اس وقت جب کہ میں سورہا تھا، ٹرین مسلسل ہل رہی تھی۔ میری آنکھ اور میرا شعور نیند کی وجہ سے معطل تھے۔مگر میرا لاشعور ٹرین کے ہلنے کو محسوس کر رہا تھا۔ اسی مجہول احساس کو میں نے خواب میں زلزلہ کی صورت میں دیکھا۔
پھر یاد آیا کہ پٹنہ میں جناب مصطفیٰ کمال صدیقی نے کہا تھا کہ الرسالہ مشن کا ساتھ دینے کے لیے اس چیز کی ضرورت ہے جس کو "اللہ اکبر" میں زلزلہ درکار ہے (صفحہ ۶۲) کے عنوان کے تحت بتایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ لوگ اپنے اندر زلزلہ لانے کے لیے تیار نہیں۔اسی لیے وہ الرسالہ کا ساتھ دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
مجھے کمال صدیقی صاحب کی رائے سے اتفاق ہے۔ الرسالہ نبأ عظیم کا نقیب ہے۔ اس کے قافلہ میں صرف وہ رو حیں شریک ہو سکتی ہیں جو قیامت سے پہلے اپنے آپ کو قیامت کے میدان میں کھڑا ہوا دیکھیں۔ جن کی حساسیت کا یہ حال ہو کہ حقیقی بھونچال تو درکنار، پتہ کا کھڑکنا اور سواری کا ہلنا بھی ان کے لیے زلزلہ الساعہ کی پیشگی خبر بن جائے۔ ایسے ہی لوگ الرسالہ مشن کا ساتھ دیں گے۔ اور امکانی طور پر آج بھی ایسے بے شمار لوگ خدا کی دنیا میں موجود ہیں۔
۳۰ جولائی ۱۹۹۱ کی دوپہر کو میں دہلی واپس پہنچا۔
دہلی واپسی کے بعد پٹنہ سے متعد د خطوط اور پیغامات موصول ہوئے۔ یہاں ان میں سے چند خطوط کے کچھ حصے نقل کیے جاتے ہیں۔ جناب ڈاکٹر شری نو اس صاحب (تری بھون ہیلتھ سنٹر)پٹنہ نے الرسالہ انگریزی کو مستقل طور پر اپنے مطالعہ میں شامل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی کتب بھی انھوں نے مطالعہ کے لیے حاصل کی ہیں۔ ان کے خط مورخہ یکم اگست ۱۹۹۱ کا ایک پیراگراف یہاں ان کے اپنے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے :
I consider it a great privilege to have met such a noble intellectual as yourself. It was indeed a treat to have listened to your fine and brilliant discourse. Your novel approach to our social and communal problems is most welcome. (Dr. Shreenivas)
جناب محمد کمال صدیقی (اور ینٹل بینک آف کامرس، پٹنہ) اپنے تفصیلی خط مؤرخہ۱۶ اگست ۱۹۹۱ میں لکھتے ہیں :
"آپ سے ملنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جس آدمی سے میری ملاقات تحریری طور پر ہوتی ہے وہ کتنا کامپلکس (complex) ہے، اور اسی آدمی سے جب میری ملاقات براہِ راست ہوتی ہے تو وہ کتنا سمپل (simple)۔ بولنے میں آپ جس قدر کم سخن ہیں شاید اسی وجہ سے کہ سوچنے کے اعتبار سے آپ گہرے ہیں۔ دو چیزیں میں آپ سے اپنے اندر منتقل کر رہا ہوں۔ ایک صبر اور دوسرافکر۔ اور جب بھی کسی معاملہ میں میں صبر سے کام لیتا ہوں تو میرا اعتماد اپنے آپ میں اور خدا میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ دراصل میں آپ کی کتابیں پڑھتا ہوں تو اپنی فطرت کو سراسر اس کے مطابق پاتا ہوں۔ اور کچھ وارداتیں بھی میرے ساتھ ایسی گزری ہیں کہ میرا دل آپ کے ذریعہ بتائے گئے دین اسلام کی تصدیق کرتا ہے۔ بھونچال کی شکل میں میں نے اپنی پچھلی زندگی کو خیر باد کہا ہے اور پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ لیا کہ اگلی زندگی کو دین پر چلانا ہے۔ پہلے میں گالیوں سے یا لوگوں کی اوچھی حرکتوں سے بدظن ہو جایا کرتا تھا اور جواب میں ایسی حرکتیں کر جاتا تھا جو تمام تر رد ِعمل کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ لیکن اب یہ سب چیزیں میرے نزدیک میننگ لس (meaningless) ہو گئی ہیں۔ ان باتوں پر بے چینی تو اب بھی ہوتی ہے۔ مگر اب وہ لوگ جواوچھی حرکتیں کرتے ہیں معذور نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ مجھے جو معلوم ہے وہ ان کو معلوم نہیں۔ ضرورت اس کی ہے کہ لوگوں کوبرتر حقیقتوں سے باخبر کیا جائے۔ "اللہ اکبر" پڑھ کر میں نے جانا کہ اللہ سے قریب ہونے کی ایک قیمت ہے جس کو ہمیں ادا کرنا ہے۔۔۔ویسے جنت کی کنجی تو آپ سونپ گئے ہیں۔ دیکھیے اس کا بوجھ اٹھا نے میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں۔ اللہ تعالی مدد فرمائے"۔
مسٹر ایم ٹی خان (عدالت گنج، پٹنہ)کا چار صفحہ کا خط موصول ہوا ہے۔ انھوں نے کئی ضروری باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ پٹنہ کے الرسالہ سمپوزیم میں جن افراد نے فکری اور عملی تعاون دیا تھا، اور ان سب کے نام اسلامی مرکز کی طرف سے شکریہ کا خط جانا چاہیے تھا جو ان کو نہیں بھیجا گیا۔ یہ واقعی ہمارے لیے کوتا ہی کی بات ہے۔ ہم ایسے تمام لوگوں سے گزارش کریں گے کہ وہ ہماری اس کوتا ہی پر درگزر فرمائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حضرات کا مخلصانہ تعاون کسی رسمی شکریہ سے بلند ہے۔ تاہم ہمارا یہ اسلامی فرض ہے کہ ہم تہِ دل سے ان کا شکریہ ادا کریں (من لم یشکر الناس لم يشكر الله)
الرسالہ سمپوزیم پٹنہ کے ساتھیوں کی طرف سے بلاشبہ ایک کامیاب اقدام تھا۔ اس کے بعد پٹنہ میں کام کی طرف نئی حرکت شروع ہوئی ہے۔ الرسالہ کا پیغام پہلے سے زیادہ لوگوں کے در میان زیر ِبحث آرہا ہے۔ روزنامہ صدائے عام (پٹنہ) نے الرسالہ کا مضمون اپنے کالموں میں شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ سمپوزیم کی خبروں کو اکثر اخبارات شائع کرتے رہے ہیں۔ قارئین الرسالہ کی تعداد مقامی طور پر بڑھ رہی ہے۔ مسٹرایم ٹی خان نے اپنی رہائش گاہ پر لائبریری قائم کی ہے جس میں الرسالہ مشن کی تمام کتا بیں برائے مطالعہ رکھی گئی ہیں۔ وغیرہ مزید یہ کہ پٹنہ میں باقاعدہ طور پر ماہانہ اجتماع بھی شروع ہو گیا ہے۔ یہ اجتماع پر وفیسر سید شہاب الدین دسنوی کی رہائش گاہ پر ہوتا ہے۔ اس کا وقت ہر مہینہ کے سکنڈ سٹرڈے کو پانچ بجے شام ہے۔ پورا پتہ اور ٹیلیفون نمبر یہ ہے :
Prof. S. Shahabuddin Desnavi, Taj Manzil,
Chajju Bagh, Patna 800 004 (Tel. 224252)
چوں کہ الرسالہ میں پٹنہ سمپوزیم کی خبر مسٹر ایم ٹی خان کے پورے پتہ کے ساتھ پیشگی شائع ہوئی تھی، اس لیے ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے اس سلسلہ میں کئی حضرات نے مسٹر ایم ٹی خان سے رجوع کیا اور معلومات دریافت کیں۔ مسٹرخان نے ان لوگوں کو بذریعہ خط اپنا جواب بھیج دیا ہے۔
مسٹر ایم ٹی خان نے مطلع کیا ہے کہ سمپوزیم کے بعد لوگوں نے مختلف سوالات کیے۔ انھوں نے بطورِ خود ان سوالات کا جواب بھی دیا۔ یہاں کچھ سوالات مع جواب نقل کیے جاتے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ جب قرآن ایک الہامی کتاب ہے اور ہمارے پیغمبر نے اس کی تعلیم کو پوری طرح پھیلا دیا ہے اور اس کے پوشیدہ پہلوؤں کو اجا گر بھی کر دیا ہے تو اب آپ ہم کو ایمان ڈسکور کرنے کا مژدہ کیوں دے رہے ہیں۔
جواب : یہاں ڈسکوری کے لفظ سے وہی چیز مراد ہے جس کے لیے قرآن و حدیث میں معرفت کا لفظ آیا ہے۔ قرآن وسنت میں اسلام بلاشبہ موجود ہے۔ مگر ایک انسان جب اپنی ذات کی سطح پر اس کی معرفت حاصل کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لیے ڈسکوری کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔ یہ اس کے لیے اسی قسم کا ایک نفسیاتی تجربہ ہوتا ہے جس کو ڈسکوری یا اکتشاف کہا جاتا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ صبر و اعراض کی تلقین بظاہر درست ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ صبرو اعراض کب تک۔ آخر اس کی حد (limit) کیا ہوگی۔
جواب : حد کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ صبر و اعراض کو شعوری طور پر اور شرح ِصدر کے ساتھ اختیار کیا جائے اور اس کا واقعۃ ً تجربہ کیا جائے۔ ابھی تو لوگوں نے صبر و اعراض کو شعوری طور پر اختیار ہی نہیں کیا اور نہ اس کا واقعی معنوں میں تجربہ کیا۔ ایسی حالت میں حد کا سوال ابھی قبل از وقت ہے۔
مزید یہ کہ حدکا سوال محض ایک فرضی اندیشہ ہے۔ اعراض کا طریقہ اگرچہ ابھی تک عمومی طور پر اختیار نہیں کیا گیا۔ مگر بہت سی انفرادی مثالیں موجود ہیں جب کہ اعراض کا طریقہ اختیار کیا گیا اور فساد کا بم فور اً ڈیفیوز ہو کر رہ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اعراض کا طریقہ مسئلہ کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کر دیتا ہے۔ پھر حد کا سوال کہاں پیدا ہو گا۔
ایک صاحب نے کہا کہ یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ آپ اکثر آرگنائزر، پانچ جنیہ وغیرہ میں چھپتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں۔
جواب : اس معاملہ میں صحیح اصول یہ ہے کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ کہاں چھپا۔ بلکہ یہ دیکھا جائے کہ کیا چھپا۔ آپ ان پرچوں میں چھپے ہوئے مضامین کو پڑھیں۔ آپ پائیں گے کہ ان میں عین وہی بات کہی گئی ہے جو الرسالہ میں برابر شائع ہوتی رہی ہے۔ پھر اس پر اعتراض کس لیے۔ یہ تو خوش ہونے کی بات ہے کہ الرسالہ کا تعمیری پیغام اس طرح زیادہ وسیع حلقوں میں پھیل رہا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ الرسالہ کا خلیج نمبر شائع کر کے آپ نے صدام حسین کی غلطیوں کو اجاگر کیا ہے۔ لیکن اب جنگ بند ہونے کے بعد صدام حسین پر طرح طرح کی زیادتیاں کی جار ہی ہیں لیکن آپ اس کے بارے میں چپ ہیں۔ ایسا کیوں۔
جواب: جب ایک شخص کو ئی سنگین غلطی کرے تواس کا انجام غلطی کرنےوالے ہی کوبھگتنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ غلطی کوئی شخص کرے اور اس کا برا انجام کوئی دوسرا شخص بھگتے۔ یہ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صدام حسین نے جارحیت کی، اور جو شخص جارحیت کرتا ہے اس کو بہر حال اس کا انجام بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ صاحبِ الرسالہ خدا کو دیکھنے اور چھونے کی بات کرتے ہیں۔ کیا واقعی انھوں نے خدا کو دیکھا ہے اور چھوا ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو کیسے۔
جواب: اس قسم کی ہر بات مجازی معنوں میں کہی جاتی ہے نہ کہ حقیقی معنوں میں۔ مثلاً اقبال کی ایک نظم "شکوہ، جواب ِشکوہ "ہے۔ اس میں اقبال خدا کے ساتھ اپنی تفصیلی گفتگو کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خدا سے باقاعدہ سوال کرتے ہیں اور خدا ان کے سوالات کا انہیں براہ ِراست جواب دیتا ہے۔ اس گفتگو کو اگر بالکل لفظی معنی میں لے لیا جائے تو وہ حد درجہ غلط قرار پائے گی۔ کیوں کہ اس قسم کی گفتگو تو خدا اور پیغمبر کے درمیان بھی نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال کی واقعۃ ً خدا سے بات چیت ہوئی۔ یہ پورا کلام بطور ِمجاز یا استعارہ ہے نہ کہ بطورِ حقیقت۔
یہ معروف مجازی (metaphorical) اسلوب ہے۔ یعنی ایک احساس کو مؤثر بنانے کےلیے اس کو واقعہ کی زبان میں بیان کرنا۔ اس قسم کے مجازی اسلوب کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں پائی جاتی ہیں اور اسلامی ادب میں بھی اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ اس اسلوب کوکبھی قابل ِاعتراض نہیں سمجھا گیا اور نہ آج کوئی سنجیدہ اور صاحب ِعلم شخص اس کو قابل اعتراض بنا سکتا ہے۔
"شکوہ اور جواب شکوہ "کی نظم کو اگر بیانِ واقعہ کے طور پر لیں تو یہ نظم سخت قابلِ اعتراض دکھائی دے گی۔ مگر جب اس نظم کو ایک شعری اسلوب سمجھ کر پڑھیں تو وہ عین درست نظر آتی ہے۔ یہی معاملہ الرسالہ میں چھپنے والے مضمون کا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ اس میں ایک حقیقی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہےتو وہ آپ کی نظر میں قابل اعتراض بن جائے گا لیکن اگر آپ یہ سمجھ کر اس کو پڑھیں کہ یہ ایک ادبی اسلوب ہے تو وہ آپ کو سراسر درست نظر آئے گا۔
مسٹرایم ٹی خان مزید اپنے خط مور خہ یکم اکتوبر ۱۹۹۱ میں لکھتے ہیں کہ سمپوزیم کی رپورٹ کا ترجمہ کر کے اس کو انگلش اور ہندی الرسالہ میں بھی شایع کر دیں۔ اس سے وہ بات اچھی طرح نمایاں ہو جائے گی جو آپ نے سمپوزیم کی بابت پٹنہ میں کہی تھی۔ یعنی : Patna shows the way
۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ کو مجھے پٹنہ ریڈیو اسٹیشن سے "تعمیرو ترقی، سماجی انصاف "کے عنوان پر ۱۰منٹ بولنے کا وقت دیا گیا تھا۔ میں نے اپنی ٹاک میں الرسالہ کے بنیادی اصولوں کو وہاں اجاگر کیا۔ اگلے دن اسے براڈ کاسٹ کیا گیا۔
کئی لوگوں نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ کنوینر نے صرف سادہ طور پر میوزیم کی کارروائی کو چلایا ہی نہیں بلکہ ہر دو تقریر کے بیچ میں لوگوں کی دل چسپی قائم رکھنے کے لیے ہلکی ہلکی خوراک بھی دیتا رہا۔ دوسرے مقامات پر سمپوزیم کا پروگرام ہو تو ان لوگوں کو بھی ایساہی کرنا چاہیے تاکہ لوگوں میں اکتا ہٹ پیدا نہ ہونے پائے۔
حقیقت یہ ہے کہ پٹنہ کا الرسالہ سمپوزیم ہر لحاظ سے ایک کامیاب تجربہ تھا۔ اس نے علامتی طور پر الرسالہ مشن کے موجودہ مقام کو بتایا۔ نیز اس نے اس مشن کے لیے کام کرنے کی نئی راہیں کھولیں۔ ضرورت ہے کہ دوسرے مقامات کے لوگ اس سے سبق لیں اور ہر جگہ اپنے حالات کے لحاظ سے اس قسم کے تجربے کریں۔