خبر نامہ اسلامی مرکز ۷۷
۱۔ ۲۰ جولائی ۱۹۹۱ کو نظام الدین (نئی دہلی) میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک اجتماع ہوا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پر "دین کی حقیقت"کے بارے میں مختصر خطاب کیا۔
۲۔یوم آزادی (۱۹۹۱) کے پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے نشر کی گئی۔ اس کا موضوع " آزادی اور ہماری ذمہ داریاں" تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ آزادی کے ساتھ اگر اخلاقی پابندی کو نہ قبول کیا جائے تو آزادی دوبارہ نئے قسم کی غلامی بن جاتی ہے۔
۳۔نیو یارک سے جناب کلیم الدین احمد صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ میشی گان کے ایک ۲۲ سالہ امریکی نومسلم مسٹریحییٰ ایمریک (Yahya Emeric) کو انگریزی الرسالہ کے کچھ پر چے ملے۔ اس کو پڑھ کر انھوں نے اتنا پسند کیا کہ اپنے پانچ امریکی دوستوں کے نام اپنی طرف سے انگریزی الرسالہ جاری کرایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی کتا بیں، گا ڈار ائز ز وغیرہ منگائی ہیں اور بہت دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحیح معنوں میں "دعوہ میٹریل"اسلامی مرکز کے لٹریچر میں ملتا ہے۔
۴۔ایم۔کے۔کمال الدین صاحب کیرالا کے باشندے ہیں وہ ۱۹۶۳ سے دبئی میں رہتے ہیں اور وہاں نیو انڈین ماڈل اسکول کے چیر مین ہیں۔ وہ اپنے انگریزی خط مؤرخہ ۱۴ جولائی ۱۹۹۱ میں لکھتے ہیں : "میں پہلے پانچ برسوں سے الرسالہ پڑھ رہا ہوں۔ اس نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس کے اندر ہر کسی کے لیے عمدہ اخلاقی سبق ہوتے ہیں۔ تری و ندرم (کیرالا)میں میرا ایک پرنٹنگ پریس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہاں سے ماہانہ الرسالہ کو ملیالم زبان میں شائع کروں امید ہے کہ آپ اس کی اجازت عنایت فرمائیں گے"۔ کمال الدین صاحب کو اسلامی مرکز کی طرف سے الرسالہ ملیالم اڈیشن نکالنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
۵۔مسٹر پرویز اختر (آرہ) نے بتایا کہ وہ تجارت کے سلسلہ میں اکثر فیروز آباد جاتے رہتے ہیں۔ وہاں ان کی ملاقات ایک ہندو تاجر مسٹر اروند سے ہوئی۔ مسٹر اروند نے بتایا کروہ الرسالہ سے اتنا زیادہ متاثر ہیں کہ اس کو اس کی اصل زبان میں پڑھنے کے لیے انھوں نے اردو سیکھی ہے اور اب وہ الرسالہ اردو کو روانی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی کئی لوگ ہیں جنھوں نے الرسالہ کو پڑھنے کے لیے اردو سیکھی ہے۔
۶۔محمد ہارون صاحب (برہم پور، مرشد آباد) الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ وہ الرسالہ کے مضامین کا بنگالی زبان میں ترجمہ کر کے ان کو بنگالی اخبارات ورسائل میں چھپواتے رہتے ہیں۔
۷۔حیدر آباد (پاکستان) کے پندرہ روزہ اخبار" تحریر و تصویر "نے اپنے شمارہ۳۱ جولائی ۱۹۹۱ میں الرسالہ کے بارے میں ایک مفصل تائیدی مضمون شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان ان لفظوں میں قائم کیا گیا ہے : "ممتاز عالم دین اور مفسرقر آن مولانا وحید الدین خاں کا کلمۂ حق"۔ ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبارات و رسائل میں اس طرح کے مضامین شائع ہو رہے ہیں۔
۸۔اس سے پہلے مسلم مسائل میں صرف احتجاج اور شکایت اور مظلومیت کی زبان بولی جاتی تھی۔ الرسالہ کی پندرہ سالہ متواتر کوشش کا یہ نتیجہ ہے کہ اب تمام لوگوں کی زبانیں بدل رہی ہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی طور پرالرسالہ کا پیٹرن اختیار کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال لکھنؤ کے پندرہ روزہ تعمیر حیات کی ہے۔ اس کے شمارہ ۱۰ اگست ۱۹۹۱ کے اداریہ کا عنوان "روشن مستقبل " ہے اور وہ پورا کا پورا الرسالہ کے نقطہ ٔنظر کی نقل ہے۔
۹۔ایک صاحب لکھتے ہیں : میں الرسالہ کا برا بر ۱۹۸۵سے قاری ہوں۔ اور بہت ہی دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ الرسالہ کا ہر لفظ موتی اور ہیر ے برابر ہوتا ہے۔ اگر ہماری قوم اس پر عمل کرے تو یقیناً ہم کو جینے کا طریقہ حاصل ہو جائے۔ خاص کراعراض کا جو سبق آپ دے رہے ہیں وہ بہت ہی قیمتی سبق ہے۔ مگر نادان لوگ اس کو بزدلی بتاتے ہیں اور برابر خود ہی نقصان بھی اٹھار ہے ہیں۔ یہاں کی مسجد میں تذکیر القرآن بھی موجود ہے۔ وہ واقعی اپنی نوعیت کی پہلی تفسیر ہے۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب کہ لوگ تبدیل ہوں گے اور الرسالہ کی نصیحت پر عمل کریں گے(مبارک حسین، اعظم گڈھ)
۱۰۔ایک خاتون لکھتی ہیں : میں مقامی ایجنسی سے ہر مہینے الرسالہ حاصل کر لیتی ہوں۔ اس کے مضامین بہت جاندار ہوتے ہیں۔ بہت سی نئی نئی باتیں سیکھتی ہوں۔ ملنے جلنے والوں کو الرسالہ پڑھنے کی ترغیب دیتی رہتی ہوں۔ کچھ ہند و صاحبان کو الرسالہ کے نسخے تقسیم کیے۔ کچھ لوگوں کو فوٹو کاپی کرا کے دیا (آمنہ منظر،کشن گنج)
۱۱۔میڈیکل کے ایک طالب علم لکھتے ہیں : میں ۱۹۸۷ سے الرسالہ کا قاری ہوں۔ میں نے پایاکہ الرسالہ نے کئی نوجوانوں کے ذہن کو تعمیری سوچ کی روشنی سے منوّر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مشن کو کامیاب کرے جو مسلمانوں کو ایک پچھڑی ہوئی زندگی اور ناکامی سے بچانے کے لیے جاری ہے۔ ہمارے کالج میں تقریباً ۳۰ مسلم طلبہ ہیں۔ ہم یہاں کئی مشکلوں سے آسانی سے نکل آئے۔ اور اب یہاں ہماری پوزیشن بہت اچھی ہے۔ کیوں کہ ہم نے آپ کے بتانے کے مطابق "حدیبیہ پرنسپل "کو استعمال کیا (محمد انور فہمی، اورنگ آباد)
۱۲۔قاری سید مبین صاحب نانڈیر میں مستان پورہ کی مسجد میں امام ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہر روز نماز فجر کے بعد وہ مسجد میں تذکیر القرآن پڑھ کر سناتے ہیں۔ بیشتر نمازی درس سننے کے لیے ٹھہر جاتے ہیں۔ تقریباً پندرہ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی مساجد میں تذکیر القرآن کے ذریعہ درس قرآن کا سلسلہ قائم ہے۔
۱۳۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ نظروں سے گزرا۔ شکر خداوندی ہے کہ اس نے آپ جیسے دینی قناعت پسند شخصیت کے ہاتھوں سے اتنا مد بر رسالہ جاری کروایا ہے۔ واقعی یہ رسالہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ عام و خاص انسانوں کے لیے ایک بہترین عطیہ ہے۔ ایک مشعل راہ ہے (حسین خاں، بنگلور)
۱۴۔۱۵ اگست ۱۹۹۱ کو آل انڈیا ریڈیونئی دہلی سے صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر نشر کی گئی۔ اس کاموضوع تھا : سماجی اصلاح کا مسئلہ۔
۱۵۔عبد الرحمن صاحب (پونہ) الرسالہ کے قاری ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں الرسالہ پڑھنے کے بعد یہ کرتا ہوں کہ اس کے منتخب مضامین کو ہندو لوگوں کو سناتا ہوں۔ وہ لوگ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ خود پڑھنے کے بعد دوسروں کو پڑھ کر سناتے ہیں۔
۱۶۔ایک نئی کتاب تیار ہوئی ہے۔ اس کا نام کاروانِ ملت ہے۔ اس کا موضوع ملت کا احیاءِ نو ہے اور وہ ۲۲۴ صفحات پرمشتمل ہے۔