انعام سے محروم
ایرانی شاعر فردوسی طوس میں ۹۳۵ء میں پیدا ہوا۔ ۱۰۲۶ء میں اس کی وفات ہوئی۔ فردوسی نے ۳۰ سالہ محنت سے وہ منظوم کتاب تیار کی جو شاہنامہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں ۶۰ ہزار اشعار ہیں اور اس میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے احوال بتائے گئے ہیں۔ فردوسی نے یہ کتاب سلطان محمود غزنوی کی فرمائش پرلکھی تھی۔ محمود غزنوی نے خوش ہو کر فردوسی کو ۶۰ ہزار سونے کے سکے دینے کا حکم دیا۔ مگر فردوسی شیعہ تھا۔ سلطان کے سنی وزیر احمد بن حسن میمندی کی ایک سازش کے تحت فردوسی کو سونے کے سکہ کے بجائے چاندی کے ساٹھ ہزار کے پیش کیے گئے۔ فردوسی کو یہ بات نا پسند ہوئی۔ اس نے انعام کی رقم وہیں لوگوں میں تقسیم کردی اور خالی ہاتھ گھر واپس چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے سلطان محمود غزنوی کی" ہجو " میں ایک نظم لکھی۔
فردوسی کے واپس جانے کے بعد ایاز کے ذریعہ یہ ہجو سلطان کو ملی۔ اس ہجو کے ذریعہ سلطان کو اپنے وزیر کی سازش کا علم ہوا۔ اس نے وزیر کو قید کر دیا اور اپنے خاص آدمی کے ذریعہ دوبارہ ۶۰ ہزار سونے کے سکے فردوسی کے لیے روانہ کیے۔ مگر فردوسی کے لیے اپنے شاہنامہ کا مطلوبہ انعام پانا مقدر نہ تھا۔ انعام کی رقم اس کے وطن اس وقت پہونچی جب کہ فردوسی کا انتقال ہو چکا تھا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ انعام کی رقم طوس حفاظت کے ساتھ پہونچ گئی مگر اشرفیوں سے لدے ہوئے اونٹ جس وقت شہر کے ایک دروازے سے داخل ہو رہے تھے، فردوسی کا جنازہ دوسرے دروازےسے قبرستان لے جایا جا رہا تھا :
The indigo reached Tus in safety; but as the camels were entering the town by one gate, Ferdowsi's bier was being carried out through another (7/234).
فردوسی کی یہ کہانی ہر آدمی کی کہانی ہے۔ یہاں ہر آدمی محنت کرتا ہے۔ وہ ساری عمر محنت کر کے ایک کام کرتا ہے۔ مگر جب وہ وقت آتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنی اس محنت کا آخری انعام پائے تو موت اس کو موجودہ دنیا سے جدا کر دیتی ہے وہ محنت کے باوجود اپنی محنت کا انعام پانے سے محروم رہتا ہے۔
جو لوگ آخرت کے لیے محنت کریں، جو دنیا کو دارالعمل سمجھیں اور آخرت کو دار الجزاء۔ ایسے لوگوں کے لیے محرومی یا مایوسی کا کوئی سوال نہیں۔