الفاظ ختم نہیں ہوتے
غالباً ۱۹۶۵ کا واقعہ ہے۔ میں لکھنؤمیں حضرت گنج کے پاس سڑک پر جارہا تھا۔ میں فٹ پاتھ پر تھا۔ قریب ہی ایک آدمی سڑک کے کنارے بائیں طرف چل رہا تھا۔ اتنے میں ایک موڑ آیا۔ آدمی موڑ پر تھا کہ عین اسی وقت پیچھے سے ایک سائیکل آگئی۔ ایک نوجوان تیزی سے سائیکل دوڑاتا ہو ا موڑ پر پہنچا۔ سائیکل قابو میں نہ آسکی اور راہ گیرے ٹکراگئی۔ راہ گیر سٹرک پر گر گیا۔ سائیکل بھی رک گئی۔ راہ گیر اٹھا۔ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے نوجوان کو غور سے دیکھا۔ اس کے بعد راہ گیر اور نوجوان کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی :
گھنٹی کیوں نہیں بجائی ––––– راہ گیر نے کہا۔
گھنٹی نہ ہو تو ––––– نوجوان نے جواب دیا۔
بریک کیوں نہیں لگایا۔
بریک نہ ہو تو۔
جب تمہارے پاس گھنٹی نہیں، بریک نہیں، تو تم سائیکل تیز کیوں دوڑاتے ہو۔
کیا تم سے پوچھ کر دوڑاؤں۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدمی اگر چپ ہونا نہ چاہے تو کس بھی دلیل سے اس کو چپ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ہر دلیل کے جواب میں الفاظ کا ایک مجموعہ بولتا رہے گا۔ یہاں تک کہ آپ خود ہی چپ ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دلیل کو ماننے کے لیے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ غیر سنجیدہ آدمی کوکسی بھی دلیل سے قائل کر ناممکن نہیں۔
موجودہ دنیا فتنہ کی دنیا ہے۔ اور دنیا کا سب سے بڑافتنہ الفاظ ہیں۔ اس دنیا میں آدمی ہر بات کے جواب میں الفاظ پالیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو مطمئن کر لیتا ہے کہ وہ حق پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب تک سنجیدہ نہ ہو اس کو سمجھایا نہیں جاسکتا۔
مثلاً آپ ایک آدمی سے کہیں کہ ٹیپو سلطان کی فوج نے آخر وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ صرف تھوڑے سے آدمی ٹیپو کے ساتھ رہ گئے تھے۔ دوسری طرف انگریز جنرل کے پاس بہت بڑی فوج تھی۔ ایسی حالت میں جنگ واضح طور پر ہلاکت کے ہم معنی تھی۔ اس کے باوجود ٹیپو نے جنگ کی اور مارےگئے۔ مگر یہ طریقہ صحیح نہیں۔ حضرت موسی کے زمانےمیں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا۔ مگر آپ کی قوم بنی اسرائیل آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیا ر نہیں ہوئی۔ صرف تھوڑے سے لوگ آپ کےساتھ رہ گئے۔ اس وقت جہاد کو ملتوی کر دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب دشمن کی طاقت فیصلہ کن حد تک زیادہ ہو تو جنگ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو سن کر وہ آدمی کہے گا کہ آپ موسی اور ٹیپو کا تقابل کر رہے ہیں۔ موسیٰ تو پیغمبر تھے، پھر پیغمبر کا اور ایک عام انسان کا تقابل کیسے کیا جاسکتا ہے۔
آپ جواب دیں گے کہ بھائی، میں نے تقابل کی بات نہیں کہی۔ میں نے پیروی کی بات کہی ہے۔ پیغمبر ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ موسیٰ بھی ہمارے لیے نمونہ تھے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ جب کسی معاملہ میں پیغمبر کانمونہ مل جائے تو ہم اس کی پیروی کریں۔ ہم اس کے خلاف نہ جائیں۔ اب وہ آدمی پر جوش طور پر کہے گا۔ آپ کیسی بات کہہ رہے ہیں۔ ہم تو پیغمبر آخر الزماں کی امت ہیں۔ ہمیں اپنے پیغمبر کی پیروی کرنی ہے نہ کہ موسیٰ کی۔ کیا آپ نے حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں پڑھا کہ لوکان موسى حياً ما وسعه إلا اتباعی۔(كنز العمال،حدیث نمبر1010)
آپ جواب دیں گے کہ میرے بھائی، یہی اسوہ ہمارے رسول کا بھی ہے۔ مکہ میں آپ کے ساتھ تھوڑے لوگ تھے۔ اس وقت آپ نے مکہ والوں سے جنگ نہیں کی۔ انھوں نے تلواریں لے کر آپ کامکان گھیر لیا۔ تو آپ رات کے وقت خاموشی سے نکل کر مدینہ چلے گئے۔ آپ نے اس وقت جنگ کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اب وہ آدمی کہے گا کہ آپ نے اسلامی تاریخ نہیں پڑھی۔ آپ حضرت ابو بکر کی تاریخ دیکھیے۔ ان کی خلافت کے زمانے میں جب لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایک رسی بھی اگر کوئی شخص دینے سے روکے گا تو میں اس سے جہاد کروں گا۔
اب آپ کہیں گے کہ بھائی، تم اقتدار کے زمانے کی بات کر رہے ہو، اور میں اقتدار سے پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت میں یہ بتا رہا ہوں کہ جب مسلمان اقتدار کی حالت میں نہ ہوں، اس وقت ان کے لیے اسلام میں کیا نمونہ ہے۔ آدمی یہ سن کر پر جوش طور پر کہے گا کہ آپ عجیب بات کر رہے ہیں۔ اسلام تو ایک مکمل نظام ہے۔ خدا نے اسلام کی صورت میں اپنی مکمل شریعت بھیج دی ہے۔ اسلام میں آدھے پونے کی تقسیم نہیں۔ اسلام ایک کامل نظام ہے اور کامل نظام کے طور پر ہی اس کولیا جا سکتا ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ میرے بھائی، یہ صحیح ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے مگر کوئی بھی نظام پورا کا پورا بیک وقت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر کام آغاز سے چل کر اختتام تک پہنچتا ہے۔ اس کا نام تدریج ہے۔ اسلام کا کام بھی تدریجی انداز سے ہوگا۔ہمیں یہ کرنا ہے کہ آج کے حالات میں جو کچھ ممکن ہے وہاں سے اپنے عمل کا آغاز کریں۔ اس طرح ہمارا اسلامی سفر شروع ہو جائے گا۔ وہ منزل بہ منزل جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ ان شاء اللہ ہم آخری مرحلہ تک پہنچ جائیں گے۔ اب آپ کا مخاطب اور زیادہ پر جوش ہو جائے گا۔ وہ کہے گا کہ آپ تو مسلمانوں کو بزدل بنا دینا چاہتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے مجاہدانہ عزائم کو ختم کر دیں اور نظام ِباطل کی دی ہوئی رعایتوں کےتحت کمتر زندگی پر راضی ہو جائیں۔
اسی طرح وہ آدمی آپ کی ہر دلیل کو پر جوش طور پر رد کر تا رہے گا۔ آپ خواہ کتنی ہی مدلل بات کہیں وہ آپ کی ہر بات کے جواب میں کچھ نہ کچھ الفاظ بول دے گا۔ اس طرح گفتگو کبھی ختم نہ ہوگی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا خاص سبب نکتہ ٔبحث کو بدلنا ہے۔ آپ جب ایک دلیل پیش کرتے ہیں تو اس کا تعلق کسی خاص نکتہ ٔبحث سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کا مخاطب نکتۂ بحث کو بدل دےتو آپ کی دلیل، نئے نکتہ ٔبحث کے اعتبار سے بے وزن معلوم ہونے لگے گی۔
قرآن میں حضرت ابراہیم نے شاہ نمرود کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ نمرود نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پھر تو میں بھی رب ہوں، کیوں کہ مجھے بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ جس کو چاہوں زندگی دوں اور جس کو چاہوں مروا دوں۔ نمرود نے یہاں یہی کیا کہ اس نے نکتہ ٔبحث کو بدل دیا۔ حضرت ابراہیم نے برتر اختیار کے معنی میں یحیی و یمیت کہا تھا، نمرود نے اس کو ملکی اختیار کے معنی میں لے کر کہہ دیا کہ أنا أحيي و أميت (البقره: ۲۵۸)
حضرت ابراہیم نے داعیانہ حکمت کے تحت اس کو نظر انداز کیا اور فرمایا کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم اس کو مغرب سے نکال دو۔ یہ سن کرنمرود مبہوت ہو گیا۔ آجکل کے انسانوں کے برعکس، شاید نمرود کے اندر بھی کچھ حیا تھی۔ ورنہ وہ چاہتا تو دوبارہ نکتہ ٔبحث کو بدل کر یہ کہہ سکتا تھا کہ ابھی تم موت وحیات کی بات کر رہے تھے اور پھر اچانک تم سورج چاند کی بات کرنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کرتم کو خود اپنی بات پر یقین نہیں۔