شاعرانہ خیال آرائی
رائے قائم کرنے کی دو صورتیں ہیں ۔ایک ہے فرضی تخیل کی بنیادپر رائے قائم کرنا۔ دوسرا ہے ، حقائق کی بنیاد پر رائے قائم کرنا۔ شاعر فرضی تخیل کی بنیاد پر اپنی رائے بناتا ہے۔ حکیم یا مفکر وہ ہے جو حقیقتِ واقعی کی بنیاد پر اپنی رائے بنائے۔
شیخ سعدی شیرازی (۱۲۹۲ – ۱۲۱۳ء) ایک شاعر تھے ۔ وہ اپنے ایک قطعہ میں کہتے ہیں کہ نوح پیغمبر کا بیٹا بروں کی صحبت میں بیٹھا تو پیغمبر کے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ بگڑ گیا اور اصحاب ِکہف کا کتا چند دن نیکوں کی صحبت میں رہا تو وہ انسان ہو گیا:
پسرِ نوح با بداں بنشست خاندان نبوتش گم شد
سگِ اصحاب کہف روزے چند پئے نیکاں گرفت مردم شد
ان اشعار کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ فرضی تخیل کی بنیاد پر کی گئی ہے نہ کہ حقائق کی بنیاد پر۔ حضرت نوح کے لڑکے کے بگڑنے کا سبب بروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بتایا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس سے زیادہ اُس کا اٹھنا بیٹھنا خود اپنے باپ حضرت نوح کے ساتھ تھا۔ پھر کیسے ایک کا اثر ہوا۔ اور دوسرے کا اثر نہیں ہوا ۔ اسی طرح اصحاب کہف کے کتے کی وفاداری کو صحبت کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ حالاں کہ کتے کے بارےمیں عام تجربہ ہے کہ وہ اپنی فطرت کی بنا پر اپنے مالک کا وفادارہوتا ہے نہ کہ صحبت پکڑنے کی بنا پر۔
بد قسمتی سے موجودہ زمانےمیں مسلمانوں میں جو رہنما اٹھے وہ اسی قدیم دورشا عری سے متاثر تھے ۔ چنانچہ انھوں نے نثر میں اسی قسم کی شاعری شروع کر دی ۔ انھوں نے فرضی تخیل کی بنیاد پر ایک رائے قائم کی ۔ اور اس کو نظریہ کے انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ حالاں کہ نظر یہ وہ ہے جو حقائق کے گہرے تجزیہ کی بنیاد پر وضع کیا گیا ہو نہ کہ شاعرانہ خیال آرائی کی بنیاد پر۔
یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں ، مگر عملاً وہ اتنی بے نتیجہ ثابت ہوئیں جیسے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی ۔ مثلاً جمال الدین افغانی کی اتحاد اسلامی، محمد علی کی خلافت تحریک، ابوالاعلی مودودی کی حکومت الہیہ، وغیرہ ۔