سفر نامہ - ۴

نے خطبہ شروع کیا۔

 خطبہ حسب معمول مقفیٰ انداز میں تھا۔ اس کا قافیہ " نا " تھا۔ امام نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اس میں قافیہ کے مطابق اس طرح کے الفاظ تھے۔مثلاً سرّاً  وعلنا ،  مابعد و مادنی ٰ ۔ وغیرہنماز کے بعد باہر نکلے تو مانگنے والوں کی قطار تھی ۔ بھیک مانگنے کا رواج ہندستان ہی کی طرح سینیگال میں بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم ہندستان کے مقابلہ میں غالباً کم ہے۔

۱۲ مئی کی صبح مجھے دکار سے واپس روانہ ہونا تھا۔ ہوٹل میں اپنے کمرہ کی کھڑ کی کھول کر باہر کی طرف دیکھا تو سمندر اور آسمان اور اڑتی ہوئی چڑیوں اور سورج کی ہلکی روشنی کے مناظر تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے سمندر اپنی مسلسل اٹھتی ہوئی موجوں کے ساتھ اذا ذكر الله وجلت قلوبهم کی کیفیت کو ممثل  کر رہا ہے۔ چڑیاں حمد خداوندی کےنغمےبکھیرتی ہوئی فضا میں اڑ رہی ہیں۔ سورج اپنا آفاقی ٹارچ جلا رہا ہے تاکہ خدا کی نشانیوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آئے ۔ ٹھنڈی ہواؤں میں ہلتے ہوئے درخت زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اگر خدا کے کرشموں (آلاء ) کو دیکھ کر تمہارے اندر تموج (thrill) پیدا نہیں ہوتا تو تم نے اس دنیا میں نہ کچھ دیکھا اورنہ اس دنیا میں کچھ پایا۔

اس دنیا کی ہر چیز حمد خداوندی کی تسبیح میں مشغول ہے۔ مسبحین کے اس عظیم اجتماع میں صرف ایک انسان ہے جو رب العالمین کا تسبیح خواں نہ بن سکا۔ جو پتھر کی طرح سخت دل ثابت ہوا، بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سخت۔

ہوٹل کے اس کمرہ میں میں ایک ہفتہ سے زیادہ مقیم رہا۔ آج جب اس کو چھوڑ کر باہر نکلا توخیال آیا کہ اسی طرح مجھے ایک روز موجودہ دنیا کو چھوڑنا ہو گا۔ آج میں منتظمین کا نفرنس کی مقررکی ہوئی تاریخ کے تحت ہوٹل کا کمرہ چھوڑ رہا ہوں، کل خدا کی مقرر کی ہوئی تاریخ کی بنا پرمجھے دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جانا ہو گا۔ کیسا عجیب ہے وہ وقت جو آچکا ، اور کیسا عجیب ہوگا وہ وقت جو آنے والا ہے ۔

 دکار سے جنیوا جاتے ہوئے راستہ میں لندن کا انگریزی اخبار ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) ۱۱ مئی  ۱۹۹۰ پڑھا۔ اس کے صفحہ اول پر ایک رپورٹ درج تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ کے متمدن شہر ۴۸ قسم کی آوازوں کے مسئلہ سے دو چار ہیں ۔ مثلاً سوتے وقت لوگوں کا خراٹے لینا ۔ وغیرہ ۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مشہور گن فائٹر جان وسلی (John Wesley) ایک بار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ملے ہوئے کمرہ سے خراٹے کی آواز آنے لگی۔ اس سے وہ اتنا بد حواس (upset) ہوا کہ وہ دیوار توڑ کر دوسرے کمرہ میں داخل ہوا اور اس آدمی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

ہیلتھ سروس اسٹاف کے ایک ذمہ دار پیٹر پیلٹ (Peter pallot) نے لکھا ہے کہ ہماری آبادیوں میں روزانہ بر پا ہونے والے ۴۸ قسم کے شور جو لوگوں کو پاگل بنا رہے ہیں،ان میں سب سے زیادہ برا شور کتوں کا بھونکنا ہے :

The sound of dogs barking is the worst of 48 everyday noises that drive people mad.

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہذب ممالک اپنی ظاہری رونقوں کے باوجود کس قسم کے مسائل سے دو چار ہیں۔ تاہم مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ اس قسم کی باتوں کو لے کر یہ کہا جائے کہ اس کاحل اسلامی نظام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایک یا دوسری قسم کے مسائل باقی رہیں گے۔ خواہ یہاں اسلامی نظام ہو یا غیر اسلامی نظام ۔ مسائل اور مصائب سے خالی دنیا صرف آخرت میں ممکن ہے۔ اور ہم کو اسی کی طرف دعوت دینا چاہیے   ۔

 اسلامی قانون کا نفاذ حقیقۃ ً  کسی معاشرہ کی اجتماعی اطاعت ہے، جس طرح عبادت ایک فرد کی انفرادی اطاعت ہوتی ہے۔ اسلامی قانون کے نفاذ کو مسائل سے آزا ددنیا کی تعمیر کا نام دینا صرف سطحیت ہے ۔ مزید یہ کہ اس میں یہ اندیشہ ہے کہ کسی ملک میں اسلامی قانون کے نفاذ کے باوجود جب مسائل کا خاتمہ نہ ہو تو لوگ خود اسلام سے مایوس ہو جائیں یا اس کے بارےمیں بری رائے قائم کرنے لگیں۔ مسائل کے حل کی بات جزئی طور پرصحیح ہو سکتی ہے۔ مگر وہ کلی طور پر درست نہیں۔

دکار سے جنیوا جاتے ہوئے جہاز میں میرے قریب ایک صاحب تھے۔ تعارف کے بعدمعلوم ہوا کہ وہ امریکی ہیں۔ان کا نام کانریڈ  (Conrad)تھا۔انھوں نے بتایا کہ وہ کمیونی کیشن انجنیئر ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں ۔

 کھانے کے وقت انھوں نے" ریڈ وائن"کا آرڈر دیا۔ یہاں سے گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ شراب کیوں پیتے ہیں۔ تفریح کے لیے   یا غذا کے لیے   ۔ انھوں نے کہا کہ دونوں کے لیے  ۔ میں نے کہا کہ کچھ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شراب صحت کے لیے   مضر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر چیز کی زیادتی (excess) مضر ہوتی ہے ۔ میں نے کہا کہ شراب ایک عادت ہے، اور جب کسی چیز کی عادت پڑ جائے تو آدمی ایسا نہیں کر پاتا کہ وہ ایک حد سے زیادہ اس کو استعمال نہ کر سکے۔

اس کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ خدا اور مذہب میں یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا نہیں۔ وجہ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ مذہب لوگوں کو آپس میں لڑاتا ہے ۔ میں نے کہا کہ لڑائی کا تعلق مذہب سے نہیں۔ انھوں نے کہا :

Why people kill each other in the name of God.

میں نے کہا کہ مذہبی لوگ نہیں لڑتے بلکہ سیاسی لوگ مذہب کے نام پر لڑائی کرتے ہیں۔ وہ مذہبی لوگوں کی برائیاں بتاتے رہے۔ میں نے کہا کہ مذہبی لوگ اگر غلط کریں تو اس سے خدا کا عقیدہ غلط ثابت نہیں ہوتا۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں ۔ آپ ایک انجنیئر ہیں۔یہ بتائیے کہ اگر کچھ لوگ ایٹمی توانائی کا غلط استعمال کریں تو کیا آپ ایٹمی توانائی کے وجود کاانکار کر دیں گے۔ اس کے بعد ان کا لہجہ دھیما پڑ گیا۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کا مطلب سمجھ گیا۔ مگر میں خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔

ڈیلی ٹیلی گراف میں ایک ہوائی حادثہair crash)) کی رپورٹ درج تھی ۔ پچھلے دن ایک ہوائی جہاز (737 Midland) انگلینڈ میں گر کر تباہ ہو گیا۔ ۴۷ آدمی مر گئے ۔ چند آدمی جو بچ گئے تھے۔ انھوں نے آخر وقت کی آنکھوں دیکھی کہانی بتائی۔ ایک بچے ہوئے مسافر نے کہا کہ آخر وقت میں جب کہ جہاز میں بیٹھے ہوئے تمام مسافر زندگی سے ناامید ہو چکے تھے ، اس نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یسوع مسیح ، اب ہم مرنے والے ہیں:

Jesus, we are going to die

ایک مسافر جو بچ گیا تھا ، اس نے اخباری نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھر وسہ جہاز کے عملہ کے اوپر تھا :

My faith was in the crew.

ایک جہاز کے دو آدمی ایک طرح کے حالات میں پہنچ کر بالکل دو قسم کے تاثر کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک اپنے خدا کی طرف دیکھتا ہے، دوسرا، جہاز چلانے والے انسانوں کی طرف ۔ یہ مشہور حدیث کے مطابق ، غالباً تربیت کے فرق کا نتیجہ ہے ۔ جس آدمی کی تربیت نے اس کے ذہن میں "مسیح "کی اہمیت بٹھائی تھی، اس کے ذہن نے اس کو مسیح  کی یاد دلائی، اور جس آدمی کی تربیت نے اس کے ذہن میں "عملہ "کی اہمیت بٹھا رکھی تھی ، اس کے ذہن نے اسے بتایا کہ اس کو اس نازک موقع پر اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ جہازکا عملہ ہے۔

 ظہر اور عصر کی نماز جنیوا ائیر پورٹ پر پڑھی۔ اس وقت میں ائیر پورٹ کے گیٹ نمبر ۲۴ پر اگلے جہاز کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں۔ میرے سامنے کھلے ہوئے میدان میں مختلف ہوائی کمپنیوں کے جہاز کھڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر پر گڑ گڑا ہٹ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی جہاز ایئر پورٹ پر اترا، یاکوئی جہاز یہاں سے روانہ ہوا۔

اسی طرح دنیا میں ہر وقت کوئی انسان آرہا ہے ، اور کوئی یہاں سے رخصت ہو رہا ہے۔ دنیا آنے اور جانے کی جگہ ہے۔ بسنے اور آباد ہونے کی جگہ صرف وہ ہے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔

جنیوا سے فرینکفرٹ کے لیے   سوئس ایئر ۵۴۴ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ راستہ میں سوئیس ایئر کا میگزین (Swissair Gazette) مئی  ۱۹۹۰  کا شمارہ دیکھا ۔ اس شمارہ میں مصر اور دریائے نیل کے بارےمیں ایک مفصل مضمون شامل تھا۔ قدیم مصر میں بتوں کی پرستش ہوتی تھی ، ان میں سے کچھ بتوں کی تصویریں اس میں دی گئی تھیں۔ ان تصویروں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ قدیم مصر کے لوگوں نے بت تراشی میں غیر معمولی کمال حاصل کیا تھا۔

 ایک بت کی تصویر کے نیچے بامعنی طور پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے –––––––  فرعون کے زمانے   میں وہ پوجے جاتے تھے۔ آج وہ ثقافتی ورثہ کا ایک حصہ ہیں :

In pharaonic times they were worshipped today they are part of a cultural patrimony.

ان الفاظ کی پوری معنویت اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتی جب تک اس میں یہ اضافہ نہ کیا جائے کہ قدیم زمانےمیں شرک ساری دنیا میں تہذیبی طاقت بن کر چھایا ہوا تھا۔ توحید کی بنیاد پر ہونے والے اسلامی انقلاب نے اس مشر کا نہ غلبہ کو ختم کر دیا ۔ اگر یہ مشرکانہ غلبہ ختم نہ کیا جاتا تو دنیا میں کبھی وہ دور نہیں آسکتا تھا جس کو آج سائنسی ترقی کا دور کہا جاتا ہے (ملاحظہ ہو : اسلام دور جدید کا خالق )

فرینکفرٹ ائیر پورٹ پر حفاظتی ہدایت (security advice) ، کے عنوان کے تحت دیواروں پر لکھا ہوا تھا کہ اپنے سامان کو رکھوالی کے بغیر نہ چھوڑیں:

Do not leave your baggage unattended.

اس کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہی معاملہ آدمی کو خود اپنے نفس کے ساتھ کرنا ہے۔ ہر آدمی کے لیے   ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کا نگراں بنا رہے ۔ ورنہ اس کا نفس اس کو تباہی کے راستہ پر ڈال دے گا اور پھر کوئی چیز اس کو خدا کی پکڑ سے بچانے والی نہ بن سکے گی۔

۱۲ مئی کی شام کو فرینکفرٹ پہنچا۔ یہاں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرے جیسے عاجز انسان کے ساتھ نصرت کا خصوصی معاملہ فرمایا۔

میرا اندازہ تھا کہ فرینکفرٹ میں چندگھنٹہ انتظار کے بعد مجھے اگلی فلائٹ دہلی کے لیے   مل جائے گی۔ مگر یہ میرے اندازہ کی غلطی تھی۔ یہاں در اصل مجھے پندرہ گھنٹہ انتظارکر نا تھا۔ میں لفتھانسہ کے کاؤنٹر پر گیا کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ میں کیا کروں ۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ کے پاس جرمنی کا ویزا ہے ۔ میں نے کہا نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ایسی حالت میں آپ جرمنی کے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ کے پاس ویزا ہوتا تو ہم شہر کے کسی ہوٹل میں آپ کے لیے   ٹھہرنے کا انتظام کر دیتے۔ میں نے کہا کہ آپ میری مدد کریں کہ ایسی حالت میں میں کیا کروں ۔

کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی خاتون نے ٹیلی فون پر کسی سے بات کی۔ بات کرنے کے بعد کہا کہ آپ یہاں ٹھہرئیے ۔ ابھی ایک لیڈی آر ہی ہیں وہ آپ کو بتائیں گی۔ چند منٹ کے بعد ایک جرمن خاتون آگئیں ۔ ان کے ایک ہاتھ میں کّمّل تھا اور دوسرے ہاتھ میں ٹرے جس میں کھانے پینے کا سامان تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ شہر میں تو داخل نہیں ہو سکتے۔ یہاں ائیر پورٹ کے لاونج میں ٹھہرئیے ۔ یہ آپ کے لیے   کھانے کا سامان ہے، اور یہ آپ کے اوڑھنے کے لیے   کّمّل ہے۔

 میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ رات گزارنے کے بعد اگلی صبح کو یہ کّمّل میں کس کو واپس کروں ۔ انھوں نے کہا کہ اس کو واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ آپ ہی کا ہے ۔ یہ پوری گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی۔

پھیلے ہوئے لاونج میں ہر قسم کی عمدہ کرسیاں سیکڑوں کی تعداد میں تھیں۔ بیٹھنے کے لیے   بھی اور سونے کے لیے   بھی ۔ رات نہایت آرام اور سکون کے ساتھ گزری۔

اس واقعہ کے بعد مجھے ایک صاحب کا قصہ یاد آیا جو انھوں نے مجھے بتایا تھا۔ میں ہندستان کے ایک مشہور اسلامی ادارےمیں تین سال تک رہا ہوں ۔ ۱۹۶۶  میں جب کہ میں اپنے وطن گیا ہوا تھا، وہ مجھ سے ملنے کے لیے   مذکورہ ادارہ میں آئے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ اس وقت میں یہاں موجو د نہیں ہوں تو انھوں نے سوچا کہ اب کیا کرنا چاہیے   ۔ یہ مغرب بعد کا وقت تھا ۔ انھوں نےطے کیا کہ رات وہاں کی مسجد میں گزار لیں اور صبح کو واپس چلے جائیں ۔ چنانچہ عشاء کی نماز کے بعد وہ مسجد میں ایک طرف لیٹ گئے۔

 کچھ دیر کے بعد ادارہ کا چوکیدار آیا۔ اس نے کہا کہ مسجد میں سونا منع ہے ، اس لیے   آپ یہاں نہیں سو سکتے۔ انھوں نے کہا کہ اچھا، میں بیٹھ کر رات گزار لوں گا۔ چنانچہ وہ دیوار کی ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد چوکی دار دوبارہ آیا۔ اس نے کہا کہ آپ مسجد میں بیٹھ کر بھی نہیں رہ سکتے۔ اس لیے   آپ باہر جائیں۔ وہ باہر نکل کہ ایک چبوترہ پر لیٹ گئے ۔ چوکیدار پھر آیا ۔ اس نے کہا کہ اجنبی آدمی کو ادارہ کے اندر ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے   آپ یہاں سے چلے جائیں۔

 انھوں نے چوکیدار سے کہا کہ تم مجھ کو یہاں کے ذمہ دار کے پاس لے چلو، میں ان سے بات کروں گا۔ اس کے بعد چوکیدار انھیں ایک کمرہ میں لے گیا۔ یہاں ادارہ کے اساتذہ رات کی چائے پی رہے تھے۔ وہ دروازہ پر کھڑے ہو گئے ۔ نہ کسی نے ان کو بیٹھنے کے لیے   کہا اور نہ چائے کی پیش کش کی۔ دروازہ پر کھڑے کھڑے انھیں حکم دے دیا گیا کہ آپ اس طرح ادارےکے اندر رات نہیں گزار سکتے۔

 موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما مغرب کی جو تصویر پیش کرتے ہیں اس کے مطابق ، مغرب کی برتری کا راز اس کی "دسیسہ کاری" ہے۔ اس نے سازشی تدبیروں کے ذریعہ دنیا کے اوپر اپنا غلبہ قائم کر رکھا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک لغو بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنی اخلاقی طاقت کے بل پر قائم ہے ۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے اخلاقی زوال کی بنا پر موجودہ زمانے میں اپنی جگہ حاصل نہ کر سکے ۔ قوموں کے عروج وزوال میں جو چیز فیصلہ کن ہے وہ اخلاق ہے نہ کہ سازش اور دسیسہ کاری۔

 سفر میرے لیے   تجرباتی مطالعہ کے ہم معنی ہے۔ ہر سفر میں کچھ نئی باتیں دریافت ہوتی ہیں۔ موجودہ سفر میں جو نئی باتیں سمجھ میں آئیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ مغربی قوموں کی اخلاقیات کا راز کیا ہے۔ یہ سوال بہت عرصہ سے کیا جاتا رہا ہے کہ مشرقی قوموں کے مقابلہ میں مغربی قوموںمیں جو بلند اخلاقی پائی جاتی ہے ، اس کا راز کیا ہے۔

اس کا راز نہایت سادہ ہے اور وہ تجارت ہے ۔ مثلاً مذکورہ واقعہ میں لفتھانسہ ہوائی کمپنی اور اسلامی تعلیمی ادارے میں اخلاقیات کا فرق کیوں ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ لفتھانسا ایک تجارتی ادارہ ہے اور مذکورہ اسلامی ادارہ ( دوسرے تمام اسلامی اداروں کی طرح) ایک ایسا ادارہ جو چندہ اور تبرعات پر چلتا ہے۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ تجارت سے کردار پیدا ہوتا ہے اور چندہ سے بے کر داری۔

موجودہ زمانے کے مسلمان بحیثیت قوم تجارت میں داخل نہ ہو سکے ۔ اس لیے   ان کے اندر وہ کردار بھی پیدا نہ ہو سکا جو ایک تاجر کے اندر لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے ۔ یہ فرق چھوٹے پیمانہ پر ہندستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ ہندو ایک تاجر قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب کہ مسلمان موجودہ زمانے میں تاجر قوم نہ بن سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں میں نسبتا ً کردار ہے، جب کہ مسلمان ان کے مقابلے میں کر دار سے خالی ہیں۔

یہ فرق یورپ میں بہت زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے ۔ ہند و صرف ابتدائی درجہ کے تاجر ہیں۔ اس لیے   ان میں ابتدائی درجہ کی اخلاقیات پائی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے  میں مغربی قومیں( اور جاپان ) زیادہ بڑے درجہ کے تاجر ہیں۔ تجارت میں وہ تمام قوموں سے بہت زیادہ آگے جاچکے ہیں ۔ اس لیے   ان میں کردار کی طاقت بہت بڑے پیمانہ پر پائی جاتی ہے۔

مسلمانوں میں کردار پیدا کرنے کے لیے   ان کا ایمان کافی تھا ۔ مگر موجودہ مسلمان ایک زوال یافتہ قوم ہیں۔ ان کے اندروہ زندگی نہیں جو جاندار قوموں میں ہوتی ہے۔ اس لیے   ان کا ایمان ایک بے روح ایمان بن کر رہ گیا۔ اور بے روح ایمان اسی طرح اخلاقیات کو پیدا کرنے سے عاجز رہتا ہے جس طرح بنجر ز مین لہلہاتی ہوئی فصل اگانے سے۔

 ایئر پورٹ کی انتظار گاہ میں میری کرسی کے قریب دو آدمی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک شخص امریکی لہجہ میں بول رہا تھا۔ دوسرا کسی اور لہجہ میں۔ امریکی مسافر کسی تعلیمی ادارہ میں تھا اور بتا رہا تھا کہ میں اکثر کا نفرنسوں میں جاتا رہتا ہوں۔ اس سلسلے میں اس نے بتا یا کہ میں فلاں فلاں کارروائیاں کرتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو میرے پاس کا نفرنسوں کے دعوت نامے نہیں آئیں گے۔ پھر میں کیا کروں گا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس کے بعد تو میرے پاس کرنے کا کوئی کام ہی نہ ہو گا :

Otherwise I have no job.

عین یہی معاملہ زیادہ بری شکل میں ہمارے لیڈروں کا ہے۔ وہ ایک نہ ایک جھگڑے کا اشو کھڑا کرتے رہتے ہیں۔ کوئی مذہبی جھگڑا کرتا ہے، کوئی قومی جھگڑا، اور کوئی سیاسی جھگڑا۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر جھگڑے کا ماحول نہ ہو تو وہ بے روزگار  (jobless) ہو جائیں گے۔

 فرینکفرٹ میں ایک بہت بڑا تجارتی ادارہ"بزنس انفارمیشن سروس "کے نام سے قائم ہے، اس کا صدر دفتر ائیر پورٹ سنٹر کی نویں منزل پر ہے ، اور اس کی شاخیں ساری دنیا میں قائم ہیں۔

فرینکفرٹ ائیر پورٹ پر اس تجارتی ادارہ کا ایک شاندار اشتہار تھا۔ اس میں یہ بتاتے ہوئے کہ ہم آپ کے بہترین تجارتی مشیر ہیں، یہ کہا گیا تھا کہ فلاں فلاں نمبر پر آپ ہم کو ٹیلیفون کر دیں، ہم خود آکر آپ کو اپنے مرکز میں لے جائیں گے :

Please call us... We will come to accompany you.

 یہ دیکھ کر خیال آیا کہ کاش اسی طرح اسلامی دعوت کے مراکز جگہ جگہ قائم ہوتے اور ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جاتا کہ ––––––  آپ ہم کو مطلع کریں ، ہمارے آدمی آپ کو اپنے ساتھ مرکز میں لائیں گے۔ تاکہ آپ یہاں آکر اسلام کا مطالعہ کر سکیں۔

  فرینکفرٹ ائیر پورٹ پر فنانشیل ٹائمز (۱۲مئی  ۱۹۹۰) پڑھا۔ اس میں ایک رپورٹ ٹیکس کی ادائیگی کے بارے میں تھی ۔ اس کا عنوان تھا: جب شادی مفید ہوتی ہے (When marriage pays) اس میں بتایا گیا تھا کہ افراد عام طور پر یہ چاہتے ہیں کہ انھیں سرکاری ٹیکس کم سے کم ادا کرنا پڑے ۔ موجوده قوانین کے تحت اس کی ایک صورت نکاح ہے۔ ایک مستحکم اور پر مسرت ازدواجی زندگی کم سے کم ٹیکس ادا کرنے کی ایک پیشگی شرط ہے :

A stable and happy marriage may be a prerequisite for paying the smallest amount of income and capital gains tax.

مغرب میں غیر شادی شدہ ازدواجی زندگی گزارنے کا عام رواج ہو گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بے شمار سماجی خرابیاں پیدا ہو ئیں۔ اب مغرب کے دانشور اپنے لوگوں کو اقتصادی محرک بتا کر انہیں ازدواجی زندگی کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 موجودہ زمانہ میں تجربات نے ثابت کیا ہے کہ مذہبی طرز ِزندگی ہی صحیح طرز زندگی ہے۔ مگر اس کے باوجود ابھی تک مذہب کی عظمت جدید دور میں قائم نہ ہوسکی ۔ اس کی وجہ مذہبی لوگوں کا داخلی زوال ہے۔ اہلِ مذاہب کے اخلاقی اور عملی زوال نے مذہب کی نظریاتی صداقت کی نفی کر رکھی ہے۔ اہل مذاہب کی عملی زبوں حالی مذہب کی نظریاتی عظمت کے اوپر ایک قسم کا پر دہ بن گئی ہے۔

 فرینکفرٹ سے دہلی کے لیے   لفتھانسا کی فلائٹ نمبر ۷۶۰ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ یہ مسلسل ساڑھے سات گھنٹہ کی پرواز تھی۔ میں نے اپنے دہلی پہنچنے کا پیغام اگر چہ فیکس کے ذریعہ پہلے بھیج دیا تھا۔ تا ہم مزید احتیاط کے لیے   آج میں نے جہاز کے عملہ کو ایک پیغام لکھ کر دیا کہ اس کو دہلی کے ٹیلیفون نمبر پر منتقل کر دیں۔ انھوں نے فوراً میرا کا غذ لے لیا اور کہا کہ یہ پیغام ہم اپنے دہلی کے آفس کو دورانِ پرواز بھیج دیتے ہیں۔ وہ دہلی میں آپ کے آفس کے ٹیلیفون نمبر پر مطلع کر دیں گے۔

یہ ہوائی کمپنیوں کا عام دستور ہے۔ مسافر کی منزل پر اگر ہوائی کمپنی کا دفتر ہے تو وہ پرواز سے پہلے یا دوران پرواز مسافر کا پیغام بھیج دیتے ہیں۔ یہ سہولت صرف اس وقت ہے جب کہ منزل کے مقامی ٹیلیفون نمبر پر مطلع کرنا ہو ۔ مثلاً وہ میرا پیغام دہلی کے ٹیلیفون نمبر پر بھیج سکتے ہیں۔ مگر وہ اس کو بنارس کے ٹیلیفون نمبر پر نہیں بھیجیں گے۔ یہ سہولت لوکل کال کے لیے   ہے ۔ ٹرنک کال کے لیے   نہیں۔

جہاز کے اندر لفتھانسا میگزین (Lufthansa Bordbuch) کا تازہ شمارہ مئی - جون ۱۹۹۰ دیکھا۔ اس کے صفحہ ۶۵ پر بتایا گیا تھا کہ لفتھانسا نے امریکہ کے لیے   نان اسموکنگ پروازیں (non-smoking flights) حال میں شروع کی ہیں۔ اس میں مزید بتایا گیا تھا کہ امریکی حکومت نے حال میں اندرونی پروازوں پر تمبا کو نوشی پر پابندی لگا دی ہے :

The U.S. Administration recently introduced a general ban on smoking on domestic routes under six hours.

ایک زمانہ تھا کہ تمباکو نوشی فیشن میں داخل ہوگئی ۔ بڑے بڑے لوگ سگریٹ اور سگار کا دھواں نکالنے کو اپنی بڑائی کانشان سمجھنے لگے تھے۔ مگر آج سائنسی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے   سخت مضر ہے۔ چنانچہ اب مختلف طریقوں سے سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی جارہی ہے۔

 ہمارا جہاز ۲۹ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا ہوا تیزی سے دہلی کی طرف چلا جا رہا ہے ۔ میں نے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا تو سورج روشن تھا اور چاروں طرف اجالا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بعد اپنی گھڑی پر نظر گئی تو اس میں آٹھ بج رہے تھے۔ گویا اس وقت جب کہ ہندستان میں رات کے آٹھ بج چکے تھے ، یہاں میں مکمل طور پر اجالے میں اپنا سفر طے کر رہا تھا۔

زمین پر اجالے اور اندھیرے کا یہ فرق سورج کے گرد زمین کی محور ی گردش سے پیدا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہر جگہ ایک ہی وقت میں شام یا ایک ہی وقت میں صبح نہیں ہوتی ۔ بلکہ مختلف وقتوں میں ہوتی ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں مختلف انداز میں اشارے کیے گئے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک بِرَبِّ ‌ٱلۡمَشَٰرِقِ وَٱلۡمَغَٰرِبِ[المعارج: 40] ہے۔ یعنی اس مالک کائنات کی قسم، جوزمین پر بے شمار مشرق اور بے شمار مغرب پیدا کرتا ہے۔

سورج کے گرد زمین کی گردش بلا شبہ حیران کن حد تک ایک عظیم واقعہ ہے۔ یہ واقعہ خاموش زبان میں اعلان کر رہا ہے کہ اس کائنات کا مالک بے پناہ حکمت والا اور بے پناہ قدرت والاہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو زمین کی یہ حیرت ناک گردش اتنی صحت کے ساتھ مسلسل قائم نہ رہ سکے۔

جہاز میں زیورک کا انگریزی اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون (۱۲ - ۱۳مئی ، ۱۹۹۰) دیکھا۔ اس کے صفحہ ۶ پر ایک مضمون تھا جس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا گیا تھا :

From Kuwait to Algiers, A new political openness

  مضمون میں دکھایا گیا تھا کہ مسلم ملکوں میں ہر جگہ پر ڈیمو کریسی موومنٹ ابھر رہی ہے ۔ ۲۲ سال کے بعد دسمبر ۱۹۸۹ میں اردن میں الکشن ہوا۔ امیر کویت نے ۱۹۸۶ میں پارلیمنٹ توڑ دی تھی ، اب کویت میں دوبارہ الکشن کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح تیونس اور الجیر یا میں جون ۱۹۹۰ء میں میونسپل الکشن کیے جا رہے ہیں۔ وغیرہ ۔

 اس مضمون کے لکھنے والے مسٹر گولڈ اسٹین (Eric Goldstein) تھے۔ مذکورہ قسم کی مثالیں دیتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ اکثر عرب حکومتیں آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کو ایک ایسی حد تک گوارا کر رہی ہیں جو پچھلے سالوں تک لا معلوم تھا :

Many Arab governments are tolerating independent political activity to an extent unknown in recent years.

مغرب کے دانشور آج کل اپنے آپ کو ایک نئے یقینی کی حالت میں پا رہے ہیں۔ سوویت یونین میں کمیونسٹ نظام کی ناکامی اور جمہوری نظام کی طرف جھکاؤ نے ان کو یہ یقین دیا ہے کہ ان کا نظام زیادہ بہتر ہے۔ اب مسلم ملکوں میں جمہوریت کی طرف رجحان ان کے یقین میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام نظامات ختم ہو کر مغربی جمہوریت کے نظام کے لیے   جگہ خالی کر دیں گے۔

اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار جمہوریت کے دور کا آغاز کیا تھا ۔ مگر بعد کے دور میں مسلم حکمرانوں کے غیر جمہوری عمل نے غیر ضروری طور پر مغرب کو اس فخر کا موقع دے دیا کہ ان کے نظام کو( اسلام سمیت) تمام دوسرے نظاموں پر برتری حاصل ہے۔

 اگر آپ جغرافی نقشہ کو اپنے سامنے رکھیں تو کاغذی نقشہ کے اعتبارسے میرے لیے   سیدھی روٹ یہ نظر آئے گی : دکار - نیجر - جده - دہلی ۔ یعنی افریقی علاقہ میں سفر کرتے ہوئے ایشیا میں داخل ہو جانا ۔ مگر میں نے دکار -جنیوا - فرینکفرٹ-دہلی کا راستہ اختیار کیا۔ یعنی میں افریقہ سے یورپ گیا ، اور یورپ سے لوٹ کر ایشیا کی طرف آیا۔

 اس کی وجہ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کا صنعتی پچھڑا اپن ہے۔ آج کا زمانہ مواصلات (communications) کا زمانہ ہے۔ مگر مواصلات کے جدید ذرائع زیادہ تر مغربی ملکوں میں مہیا ہوتے ہیں۔ اس لیے   ایشیا اور افریقہ کے درمیان روابط مغرب ہی کے واسطہ سے قائم ہوتے ہیں۔

موجودہ زمانے کے مسلم رہنما آخری جو چیز جانتے تھے ، وہ صرف سیاست تھی۔ اپنے روایتی ذہن کی بنا پر انھوں نے سیاست ہی کو سب کچھ سمجھا۔ وہ سیاست کے میدان میں مغرب سے ٹکراؤ کرتے رہے ۔ وہ سائنس کی اہمیت سے بالکل بے بہرہ تھے۔ چنانچہ سیاست کے علاوہ باتوں کو وہ سمجھ نہ سکے اور نہ ان باتوں میں انھوں نے مسلمانوں کو بر وقت رہنمائی دی ۔ موجودہ زمانے کی پوری مسلم تاریخ میں کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں جس کے اقوال و اعمال سے ثابت ہو کہ وہ سائنسی ذہن رکھتا تھایا سائنس کی اہمیت سے واقف تھا۔

 اسی غفلت کا یہ نتیجہ ہے کہ سیاسی زنجیروں سے رہائی کے با وجود تمام مسلم مالک مغرب کی غیر سیاسی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ سائنس اور ٹکنالوجی میں اپنے پچھڑے پن کی وجہ سے وہ تمام جدید شعبوں میں مغرب کی مدد لینے پر مجبور ہیں۔

۱۳ مئی ۱۹۹۰ کو دہلی پہنچا۔ ایئر پورٹ پر ایمگریشن سے فارغ ہو کر آگے بڑھا تو کسٹم کے مقام پر لوگوں کی دارو گیر ہو رہی تھی۔ ہر آدمی اپنا سامان لیے   ہوئے کسٹم والوں کی پکڑ میں تھا۔ اور سامان کھول کھول کر ہر ایک کی جانچ کی جا رہی تھی۔ میں وہاں ایک لمحہ کے لیے   ٹھہرا۔ فوراً  ہی کسٹم کا ایک آدمی میری طرف متوجہ ہوا اور کہا : آپ جائیے ، آپ جائیے ۔ گیٹ کے باہر آیا تو و ہاں ایک صاحب گاڑی کے ساتھ مجھے لے جانے کے لیے   موجود تھے۔

میں نے سوچا تو یہ پورا معاملہ میرے ذہن میں قیامت کے واقعے کی صورت میں ڈھل گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے میں دنیا سے نکل کر قیامت کے میدان میں داخل ہوا ہوں ۔ احتساب کے فرشتوں کو دیکھ کر رک جاتا ہوں۔ اچانک احکم الحاکمین کی طرف سے آواز آتی ہے کہ تم جاؤ ، تم جاؤ ۔ آگے بڑھتا ہوں تو رحمت کے فرشتے استقبال کے لیے   آجاتے ہیں تا کہ مجھ کو اپنے ساتھ لے جاکر"دار الخلد" میں پہنچا دیں ۔

حدیث قدسی میں آیا ہے کہ أَنَا عِنْدَ ‌ظَنِّ ‌عَبْدِي ‌بِي (صحيح البخاري7066) (میں بندہ کے گمان کے ساتھ ہوں ) کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندے کے اس گمان کو پورا کر دے اور ائیر پورٹ کے دنیوی تجربے کو میرے لیے   آخرت کے معاملے کی پیشگی خبر بنا دے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom