قومی نہ کہ اسلامی

موجودہ زمانہ میں مسلمان جہاں جہاں آباد ہیں ، خواہ وہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ، ہر جگہ انھوں نے اسلام کے نام پر سرگرمیاں جاری کر رکھی ہیں ۔ ان سرگر میوں کو کچھ لوگ صحوہ اسلامیہ ( اسلامی بیداری) کہتے ہیں ۔ مگر یہ اس لفظ کا غلط استعمال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد سرگرمیاں نہ تو صحوہ ہیں اور نہ اسلامیہ ۔ اسلام کے نام پر ہونے والی ان سرگرمیوں کو صحیح طور پر صرف ایک نام دیا جا سکتا ہے ، اور وہ منفی رد عمل ہے ۔

ان سرگرمیوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو ان سب میں ایک چیز مشترک طور پر موجود ملے گی۔ اور وہ ہے کسی نہ کسی دوسرے گروہ کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کے خلاف لفظی یا عملی تحریک چلانا ۔ کسی ملک میں یہ تحریک خود اپنے ملک کے مسلم حکمرانوں کے خلاف چل رہی ہے ۔ جن کو یہ تحریک چلانے والے بددین یا دشمنوں کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ کہیں یہ تحریک غیر مسلم قوم کے خلاف جاری ہے جو" مسلم دشمن" ہونے کی بنا پر ان تحریکوں کی حریف بنی ہوئی ہیں۔ کہیں کوئی حکمراں گروہ اسلامی قانون کی راہ میں رکاوٹ نظر آتا ہے ، اس لیے اس کو اقتدار سے ہٹانے کے نام پر ہنگامے کیے جارہے ہیں۔

صحوہ اسلامیہ کے تحت چلنے والی تمام تحریکوں کا نشانہ احتساب ِغیر ہے۔ جب کہ صحیح اسلامی تحریک وہ ہے جس کا نشانہ احتساب خویش ہو۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ سرگرمیاں حقیقۃ ً  صحوہ اسلامیہ کا معاملہ نہیں۔ یہ صرف ماحول کے خلاف منفی رد عمل ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔

قومی ہنگاموں اور منفی رد عمل کو اسلام بتانا اور اس کو اسلامی اصطلاحوں میں بیان کرنا بلاشبہ جرم ہے۔ اور موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام رہنما اور دانشور اس جرم میں مبتلا ہیں۔ یہ عین وہی جرم ہے جس میں اس سے پہلے یہود مبتلا ہوئے ۔ یہ قرآن کے الفاظ میں، آیات الہی کے بدلے ثمن قلیل خریدنا ہے ۔ اور موجودہ زمانے میں اسی کا نام استغلال(exploitation) ہے۔یعنی قومی اور دنیوی سرگرمیوں کو مذہب کا نام دینا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom