کلمۂ معرفت
قُلۡ مَا كُنتُ بِدۡعٗا مِّنَ ٱلرُّسُلِ وَمَآ أَدۡرِي مَا يُفۡعَلُ بِي وَلَا بِكُمۡۖ إِنۡ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَيَّ وَمَآ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٞ مُّبِينٞ [الأحقاف: 9] کہو کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارےساتھ کیا کیا جائے گا۔ میں تو صرف اس کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف وحی کے ذریعہ آتا ہے۔اور میں صرف ایک کھلا ہوا آگاہ کرنے والا ہوں ۔
یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ ایک واقعہ کے ذیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : خدا کی قسم ، میں نہیں جانتا، اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں ، کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور کیاکیا جائے گا تمہارے ساتھ (وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ، مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ، التفسير المظہرى ، ۳۹۶/۸)( صحيح البخاري، 6615)
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ کلمۂ عبدیت ہے نہ کہ کلمہ ٔآخرت ۔ یعنی یہ عبدیت کےاحساس کے تحت نکلے ہوئے الفاظ ہیں، یہ آخرت کے فیصلہ کا اعلان نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے لیے اور اپنے تمام سچے بندوں کے لیے مغفرت کا اعلان فرمایا ہے۔ مگر ایک صاحبِ معرفت بندہ جب یہ سوچتا ہے کہ میں عاجز ِمطلق ہوں اور خدا قادرِ مطلق ہے۔ اور آخرت کے فیصلہ کا اختیار یک طرفہ طور پر صرف خدا کے ہاتھ میں ہے تو رحمت کے یقین کے باوجود وہ کانپ اٹھتا ہے۔ خدا کی عظمت کے احساس سے اس پر لرزہ طاری ہو جاتاہے۔
ایک طرف اس کو خدا کی رحمت کا یقین ہوتا ہے اور دوسری طرف خدا کی پکڑ کا اندیشہ۔ یہ صورتِ حال اس کو امید اور خون کے عین درمیان کھڑا کر دیتی ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے اس کو اپنا معاملہ بالکل ففٹی ففٹی (fifty-fifty) کا سا نظر آنے لگتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ “ مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ”۔ معرفت کا اعلی ترین مقام ہے ۔ جس آدمی کو خدا کی معرفت جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی زیادہ اس کے اندر عظمت خداوندی کا احساس بڑھتا چلا جائے گا ۔ اور عظمت خداوندی کا حقیقی ادر اک آدمی کی زبان سے جو کلمہ نکلواتا ہے وہ یہی کلمہ ہے۔