منصوبۂ خداوندی
قرآن میں مومنین صالحین کو خیر البریہ کہا گیا ہے اور ان کے لیے ہمیشہ کی جنت کا وعدہ کیا گیا ہے (البینہ ) یہ کون لوگ ہیں جو اس عظیم فضل کے مستحق قرار پائیں گے ۔ ایک لفظ میں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی صفت یہ ہوگی کہ وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ ان سے راضی ہو گیا ( رضی الله عنهم ورضوا عنه)
مومن کے اللہ سے راضی ہونے (ورضوا عنہ) کا ایک پہلو خالص شخصی ہے۔ یعنی اپنی ذات کے معاملہ میں اپنی پسند کو چھوڑ کر اللہ کی پسند کو اختیار کر لینا ۔
اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو دنیا میں اللہ کے منصوبہ کو جاری کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس اعتبار ے ورضوا عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اپنے آپ کو اللہ کے منصوبہ میں شامل کریں۔ وہ اپنےجان و مال کو منصوبہ الہی کی تکمیل میں لگانے پر راضی ہو جائیں ۔
اس معاملہ کی پہلی اور کامل مثال وہ ہے جو اصحابِ رسول نے اپنی قربانیوں سے قائم کی۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اللہ کا خاص منصوبہ یہ تھا کہ ایک ایسا انقلاب لایا جائے جس کے بعد صرف عقیدہ ٔتوحید کو فکری عظمت حاصل رہے۔ دوسرے تمام عقیدے اور نظریے اپنا فکری جواز کھو دیں۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے:وَقَٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٞ [البقرة: 193] .
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایک عظیم انقلاب لانا تھا جو صرف عظیم قربانی ہی کے ذریعہ ممکن ہو سکتا تھا۔ صحابہ کرام نے پوری رضا مندی کے ساتھ اپنے آپ کو اس منصوبہ الہی میں شامل کیا۔ اس میں وہ اس حد تک پورے اترے کہ ان کی زندگی ہی میں ان کے بارے میں اعلان کر دیا گیا کہ رضی الله عنهم ۔
اس انقلاب کے مختلف پہلو تھے ۔ اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ خدا کے دین کو ایک تاریخی واقعہ بنا دیا جائے۔ اس سے پہلے ایک سو ہزار سے زیادہ پیغمبر آئے ۔ مگر دین خداوندی ایک تسلیم شدہ واقعہ کی حیثیت سے تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکا۔ صحابہ کرام نے اپنی قربانیوں سے دین خدا وندی کو مرحلۂ دعوت سے نکال کہ مرحلۂ انقلاب اور درجہ ٔاستحکام تک پہنچا دیا۔
آج دوبارہ اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ ہے ۔ وہ دوبارہ تقاضا کر رہا ہے کہ اہلِ ایمان اپنے آپ کو اس منصوبۂ خداوندی میں شامل کریں۔ وہ اپنی تمام طاقتیں خرچ کر کے اس منصوبہ کو تکمیل تک پہنچائیں۔ جو لوگ اس پر راضی ہوں کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے اس منصوبہ میں شامل کریں ، ان کے لیے خدا کی طرف سے پیشگی طور پر یہ خوش خبری ہے کہ وہ ان سے راضی ہوگا اور ان کو ابدی جنتوں میں داخل کرے گا۔
یہ منصوبہ کیا ہے۔ یہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ امام احمد اور دوسرے محدثین نے اس کو سند ِصحیح سے نقل کیا ہے ۔ حضرت مقداد کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ زمین کی سطح پر کوئی کچا یا پکا گھر ایسا نہیں بچے گا ، مگر یہ کہ اللہ تعالی اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا (لا يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلا وَبَرٍ إِلا أَدْخَلَهُ اللَّهُ كَلِمَةَ الإِسْلامِ۔ السنن الكبرى – البيهقي، 18658)
قدیم زمانہ میں یہ واقعہ ممکن نہ تھا کیوں کہ اس زمانہ میں اس کے ذرائع حاصل نہ تھے۔ موجودہ زمانہ میں جو وسائل اعلام (پرنٹ میڈیا ، الکٹرانک میڈیا) ظہور میں آئے ہیں ، انھوں نے پہلی بار اس کو ممکن بنادیا ہے کہ ساری دنیا کے ایک ایک گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا جاسکے۔
جدید وسائلِ اعلام کے ظہور کے باوجود دوسری دنیا (کمیونسٹ بلاک )میں اسلام کا پیغام پہنچانا بظا ہر نا ممکن نظر آرہا تھا۔ مگر ۹۰ - ۱۹۸۹ میں جو تبدیلیاں سامنے آئی ہیں انھوں نے حیرت انگیز طور پر اس رکاوٹ کو بھی ختم کر دیا ہے ۔ ٹائم میگزین (۱۲ مارچ ۱۹۹۰) نے بجاطور پر اس کو سوویت ایمپائر کے انہدام سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد سوویت روس میں از سرِ نو اسلام کی اشاعت کے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ ٹائم (۱۲ مارچ ۱۹۹۰) نے ایک با تصویر رپورٹ چھاپی ہے۔ اس کا عنوان بامعنی طور پر یہ ہے کہ کارل مارکس محمد کو جگہ دیتا ہے :
Karl Marx makes room for Muhammad
جمہوریت اور آزادی کے انقلاب کے نتیجے میں مذہبی اشاعت کی مکمل آزادی ، سوویت روس میں میخائیل گوربا چیف کی لائی ہوئی تبدیلیوں کے بعد مذہب کے لیے آزادانہ مواقع کھلنا، جدید وسائل اعلام کے ذریعہ یہ ممکن ہو جانا کہ ساری دنیا کے تمام لوگوں تک اسلام کا پیغامِ حق پہنچا یا جا سکے، یہ واقعات واضح طور پر یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے زمانے کے لیے اسلام کی عمومی اشاعت کی جو پیش گوئی فرمائی تھی ، اس کا وقت پوری طرح آچکا ہے۔
خدا نے اپنا کام کر دیا ہے۔ اب اہلِ ایمان کو اپنے حصہ کا کام کر نا ہے۔ خدا اپنے منصوبہ کے مطابق ضروری مواقع مہیا فرماتا ہے۔ اس کے بعد خدا کے مومن بندے اٹھتے ہیں اور ان مواقع کو استعمال کر کے اس منصوبےکی تکمیل کرتے ہیں ۔
ساتویں صدی میں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ختم شرک کے منصوبے کے لیے تمام ضروری مواقع جمع کر دیے تھے ۔ رسول اور اصحاب رسول نے ان مواقع کو استعمال کر کے خدا کے منصوبے کو عملی واقعہ بنایا۔ اسی طرح موجودہ زمانےمیں اسلام کی عمومی اشاعت کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو منصوبہ ہے ، اس کے تمام ضروری اسباب مہیا کر دیے گئے ہیں۔ خدا نے دوبارہ اپنا کام کر دیا ہے۔ اب خدا کے بندوں کو اٹھنا ہے اور پیدا شدہ مواقع اور اسباب کو استعمال کر کے دوبارہ خدا کے منصوبے کو عملی طور پر مکمل کر دینا ہے۔
خدا کا دین قرآن کی زبان میں آواز دے رہا ہے کہ من أنصاری إلی الله ۔ اہل ایمان کو اس کے جواب میں کہنا ہے کہ نحن أنصار اللہ ۔ یہ تاریخ کا نازک ترین لمحہ ہے ۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس لمحہ کو پہچانیں اور اپنا سب کچھ اس کی بجا آوری میں لگا دیں۔