قرآنی تدبیر
از مولانا محمد منظور نعمانی
قرآن پاک کی ایک ہدایت ہے کہ جب کوئی تم سے برسرپیکا ر ہو اور تمہارے ساتھ برے طریقے سے پیش آئے تو تم اس کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرو اور خوب صورت طریقے پر اس کی بات کا جواب دو، اگر تم نے ایسا کیا تو جلد ہی دیکھ لو گے کہ دشمن تمہا را دلی دوست بن جائے گا۔
آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اس کی توفیق صرف ان خوش نصیبوں کو ہوگی جو بر داشت کی صفت یعنی اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوں گے۔
یہ قرآن مجید کی آیت کا حاصل اور گویا لفظی ترجمہ ہے یقین ہے کہ جس کسی بندے نے بھی اس کی ہدایت پر عمل کیا ہو گا اس کو ضرور اس نتیجہ کا بھی تجربہ ہوا ہو گا جو قرآن مجید نے بتلایا ہے ۔
نا چیز را قم سطور کو اعتراف ہے کہ اپنے مزاج کی فطر کی حدت یعنی تیزی اور نفس پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی اس زریں ہدایت و تعلیم پر عمل کی توفیق بہت ہی کم نصیب ہوئی ہے لیکن جب کبھی اللہ کی توفیق سے اس پر عمل نصیب ہو گیا تو اسی وقت کھلی آنکھوں وہ نتیجہ دیکھ لیا جس کا وعدہ قرآن پاک کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔ اسی سلسلہ کا اپنا ایک تجربہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
اگست ۱۹۴۵ کا پہلا ہفتہ تھا۔ یاد رہے کہ رمضان المبارک کی ۱۸ تاریخ تھی ۔ ناچیز راقم سطور کو ۱۴- ۱۵ ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ سے دہلی جانا تھا۔
یہاں یہ بات بھی یاد کر لی جائے کہ یہ وقت وہ تھا جب کہ ہندستان میں ہندومسلم کشیدگی آخری حد تک پہنچ چکی تھی۔ کلکتہ نواکھالی اور بہار وغیرہ میں بڑے بڑےمہیب فساد ہو چکے تھے۔ اور بس ایک ہفتہ کے بعد ۱۵ اگست کو ملک کی باقاعدہ تقسیم عمل میں آنے والی تھی۔ اب تو ماشاء اللہ لکھنؤ اور دہلی کے درمیان براہ راست ۳، ۴ ٹرینیں چلتی ہیں اس وقت ایک ٹرین بھی لکھنؤ سے دہلی براہ راست نہیں جاتی تھی۔ کانپور ، مراد آباد تبدیل کرنی پڑتی تھی۔ ہم نے براہ مراد آباد دہرہ ایکسپریس سے سفر طے کیا ۔ لکھنو سے اس کی روانگی کا وقت اس وقت بھی وہی تھا جو آج ہے یعنی تقریباً ۷ بجے شام۔ اپنے سفری تجربہ کی بنا پر مجھے سب سے آگے والے ڈبہ میں جگہ ملنے کی زیادہ امید تھی۔ اس لیے ہم لوگ وہاں کھڑے ہو گئے جہاں اس ڈبہ کے پہنچنے کی توقع تھی۔اور ساتھیوں میں سے چند کومقر رکر دیا کہ ٹرین جیسے ہی آکر رکے وہ مستعدی سے ڈبہ میں گھسنے کی کوشش کریں۔ اور جو جگہ بھی خالی نظر آئے اس کو ساتھیوں کے لیے گھیر لیں ۔ اس کی تاکید کر دی گئی کہ کسی کو ایذا نہ پہنچے اور جھگڑا نہ ہو ۔ ٹرین آکر رکی۔ جیسا کہ میرا اندازہ تھا اگلے ڈبہ سے مسافروں کی خاصی تعداد اتری اور کافی جگہ خالی ہوئی۔ ہمارے وہ چند ساتھی قرارداد کے مطابق پھرتی سے ڈبے کے اندر پہنچ گئے اور خالی شدہ سیٹوں پر اپنے کپڑے بچھا کر جگہ محفوظ کرلی اور دوسرے ساتھی بھی اندر داخل ہو گئے۔ میں بھی پہنچ گیا۔
ایک سیٹ پر ایک ساتھی نے کپڑا بچھا دیا تھا۔ میں اسی کپڑے پر جا کر بیٹھ گیا۔ میرے برابر میں ایک اور ساتھی بیٹھ گئے۔ ایک پنڈت جی جو اسی ٹرین میں (صوبہ بہار کے کسی مقام سے آرہے تھے) اوپر بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً کسی ضرورت سے نیچے آئے وہ اندر آئے۔ زبان سے کوئی بات کہنے کے بجائے انھوں نے انتہائی اشتعال انگیز طریقہ پر ایک ہاتھ سے میرا بازو پورے زور سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے میرے دوسرے ساتھی کا۔ اس جگہ سے ہمیں اٹھانا چاہا۔ انھیں غالباً یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہم لوگ اتنی تعداد میں ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے یہ حرکت شروع کی میرے بعض ساتھیوں نے بڑھ کر انھیں پکڑ لینے کا ارادہ کیا۔ میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے ڈانٹ کر کہا کہ ہر شخص اپنی جگہ پر بیٹھے اور بالکل خاموش بیٹھے ۔ اگر کچھ بات کرنے کی ضرورت ہوگی تو میں خود کرلوں گا۔ اس کے بعد میں نے ان پنڈت جی سے نرمی سے کہا کہ آپ زبان سے فرمائیے کہ کیا بات ہے اور آپ کیا چاہتے ہیں۔ انھوں نے نہایت غصے کے ساتھ کہا آپ لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ، یہ میری جگہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی یہ بات تو آپ سہولیت سے بھی کہہ سکتے تھے ۔ آپ نیچے اتر گئے تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے یہ جگہ خالی دیکھی تو انھوں نے کپڑا بچھا دیا اور میں آکر یہاں بیٹھ گیا۔ اگر آپ سیدھے طریقے سے یہ فرما دیتے کہ یہ جگہ آپ کی ہے ، یہاں آپ بیٹھے تھے تو یہ آپ ہی کی جگہ ہے ۔ آپ یہاں بیٹھ جائیے۔ میں نے یہ کہہ کر وہ جگہ خالی کر دی۔ پنڈت جی کے اس رویے پر میرے بعض ساتھیوں کو پھر گرمی آنے لگی ۔ تو میں نے ان سے کہا۔
آپ لوگوں میں سے کسی کو بولنے کا حق نہیں۔ جب یہ اس جگہ پر پہلے سے بیٹھے تھے تو انہیں کی جگہ ہے۔ بات ختم ہوگئی اور میں نے پنڈت جی کا ہاتھ پکڑ کر اس جگہ پران کو بٹھا دیا۔ اور ساتھیوں کے ذہن کو دوسری طرف موڑنے کے لیے بہ حیثیت امیر قافلہ سفر کے اصول و آداب اور دعاء ،وغیرہ کے بارے میں کچھ ہدایتیں دینا شروع کر دیں ۔
ہم سب روزے سے تھے اور ٹرین کی روانگی کے صرف پانچ سات منٹ کے بعد افطار کا وقت ہونے والا تھا۔ ایک دوست جو ہم لوگوں کو صرف رخصت کرنے اسٹیشن آئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ اگر اسٹیشن پر برف مل جائے تو ایک سیر آپ لا دیجئے۔ وہ دوست برف تلاش کرنے کے لیے چلے گئے۔ ہمارے وہ مہربان پنڈت جی بھی خاموشی کے ساتھ ڈبے سے اترے۔ ہمارے جو دوست برف تلاش کرنے کے لیے گئے تھے وہ ابھی واپس نہ آئے تھے کہ پنڈت جی پانچ سیر برف کہیں سے خرید لائے اور خاموشی کے ساتھ میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے سرا ٹھا کر ان کی طرف دیکھا توان کی آنکھ میں شرافت کی چمک اور ندامت کے آنسو تھے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ قبول کر لو۔ میں نے کہا کہ سر آنکھوں پر، لیکن یہ بہت زیادہ ہے۔ آپ اس کی قیمت لے لیں مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے ۔ بالآخر میں نے قبول کر لیا۔ اب ٹرین لکھنو سے روانہ ہوگئی۔ میں پنڈت جی سے ذرافاصلے پر اپنے ساتھیوں کے پاس بیٹھ گیا۔
پنڈت جی خود اٹھ کر آئے اور مجھ سے کہا کہ بہت غلطی ہوئی ، آپ وہاں بیٹھئے جہاں پہلے بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آرام سے بیٹھا ہوں آپ بلا تکلف اپنی جگہ بیٹھیں۔ وہ اس پر راضی نہیں ہوئے اور کہا کہ اگر آپ وہاں چل کر نہیں بیٹھیں گے تو میں بھی نہیں بیٹھوں گا۔ بالآخر میں اسی جگہ جا کر بیٹھ گیا۔
اس کے بعد جب آفتاب غروب ہو گیا تو ہم لوگوں نے روزہ افطار کیا اور ٹرین ہی میں مغرب کی نماز باجماعت پڑھی۔ پنڈت جی ادب کے ساتھ نماز ختم ہونے تک کھڑے رہے ، اپنی جگہ پر بیٹھے بھی نہیں۔ سلام پھیرنے کے بعد جب انھیں اس حالت میں دیکھا تو اصرار کر کے بیٹھا یا پھر بھی وہ اس وقت تک ادب سے بیٹھے رہے جب تک ہم سنتوں اور نفلوں سے فارغ ہوئے ۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے کھانا کھایا۔ پھر کچھ دیر کے بعد عشاء کا وقت آگیا ہم لوگوں نے جماعت سے عشاء کی نماز اور جماعت ہی سے تراویح بیس رکعت پڑھی۔ اس پورے وقت میں پنڈت جی اس ادب سے بیٹھے رہے گویا وہ بھی دل سے ہمارے ساتھ نماز میں شریک رہے۔
ڈبہ میں اتنی جگہ نہ تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص سو سکے اوپر والی سیٹوں پر ان حضرات کے بستر لگے ہوئے تھے جو پہلے سے اس ٹرین پر سفر کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک بستر پنڈت جی کا بھی تھا۔ ان کے علاوہ جن لوگوں کے بستر تھے سب جا کر لیٹ گئے۔ پنڈت جی نے اوپر کے ایک بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بستر میرا ہے اس پر آپ آرام کر لیں ، میں نے کہا کہ پنڈت جی یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اپنے بستر پر آپ خود آرام کریں گے۔ پنڈت جی نے کہایا تو اس پر آپ سوئیں گے ورنہ میں بھی نہیں سوؤں گا اور یہ رات بھر خالی پڑا رہے گا۔ جب میں نے پنڈت جی کا اصرار دیکھا اور اندازہ کر لیا کہ واقعتاً وہ ایسا ہی کریں گے تو میں نے کہا کہ آپ مجھے اختیار دے دیجئے۔ خواہ میں خود سوؤں یا کسی دوسرے کو سلاؤں تو انھوں نے مجھے اختیاردے دیا۔
ہمارے ساتھیوں میں ایک بھائی نصیر الدین تھے جن کی صحت ایکسی ڈنٹ کی وجہ سے بہت خراب ہوگئی تھی گویا ہمیشہ مریض ہی رہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی نصیر تم سو جاؤ۔ پہلے انھوں نے معذرت کی پھر میں نے ان سے کہا کہ اچھا میں امیرِ قافلہ کی حیثیت سے آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ اس پر سو جائیں۔ چنانچہ وہی سوئے ۔
مراد آباد میں ہمیں ٹرین تبدیل کرنی تھی ۔ رات کے دو بجے کے قریب جب مراد آباد آیا تو ہم لوگوں کو پنڈت جی نے اس طرح رخصت کیا جس طرح وہ اپنے عزیز ترین رشتہ داروں یا دوستوں کو رخصت کرتے۔ میرے دل پر آج تک پنڈت جی کے رویہ کا گہرا اثر ہے۔
قرآن مجید کی جس ہدایت و تعلیم کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے اگر اس پر عمل کرنے کی توفیق قر آن والوں کو ہو جائے تو روز ایسے ہی تجربے ہوں اور دین و دنیا کے کتنے ہی بند دروازے ہمارے لیے کھل جائیں ۔ (ہفت روزہ الجمعیۃ ۲۶ جولائی ۱۹۹۰)