سبب یہاں ہے
۱۷ مارچ ۱۹۹۰ کو میں دہلی سے ایک بیرونی سفر پر روانہ ہوا۔ اردن ائیر لائنز پر سفر کرتے ہوئے اس کا انفلائٹ میگزین الأجنحة (مارچ ۱۹۹۰) پڑھنے کو ملا۔ اس کے صفحہ ۵۸ پر ایک عرب خاتون لیما نبیل کا مضمون چھپا ہوا تھا۔
مذکورہ عرب خاتون اسپین (غرناطہ) گئیں۔ وہاں انھوں نے عرب دور کے آثار دیکھے۔ ان پر عظمت آثار کو دیکھ کر وہ روپڑیں۔ یہاں انھوں نے تاریخ النصر العربی کو بھی دیکھا اور تاریخ الذل العربي کو بھی ۔ انھوں نے کہا کہ کبھی عرب کی عظمت یہاں تھی، اور یہیں سے پانچ سو سال پہلے عرب کی ذلت شروع ہوئی۔ وہ اپنے دل سے پوچھتی رہیں کہ عرب کی یہ رات کب تک باقی رہے گی (إلَى مَتَىَ سَيَسْتَمِرُّ هَذَا اللَّيْلُ الْعَرَبِيُّ )
سفر سے واپس آیا تو ڈاک میں دہلی کا سہ روزہ دعوت( ۲۸ مارچ ۱۹۹۰) موجود تھا۔ اس کے پہلے صفحہ کے مضمون کی سرخی ان الفاظ میں چھپی ہو ئی تھی : اسلامی دنیا آخر اتنی بے سہارا ، بے وقعت اور بے وزن کیوں بن کر رہ گئی ہے۔
اس قسم کے مضامین آج مسلم دنیا کے کسی بھی پرچہ اور کسی بھی میگزین میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی صورت حال سے متاثر ہو کر مشہور عرب ہفتہ وار الدعوۃ نے اپنے شمارہ ۱۲ ذی القعده ۱۴۰۵ ھ ( ۲۹ جولائی ۱۹۸۵)میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اس میں موجودہ حالات کا ذکر تھا۔ اس مضمون کا عنوان ان لفظوں میں قائم کیا گیا تھا : أَلَیْسَ للدِّیْنِ رَبٌ یَحْمِیْہِ . (کیا اس دین کا کوئی رب نہیں جو اس کی مدد کرے)
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ پست اور حقیر اور مغلوب قوم بن گئے ہیں۔ ان کا یہ حال صرف ان ملکوں میں نہیں ہے جہاں وہ اقلیت کی حیثیت سے آباد ہیں ۔ ان کا یہی حال ان ملکوں میں بھی ہو رہا ہے جہاں وہ اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں اور جہاں بظاہر ان کی آزاد حکومتیں قائم ہیں۔
یہاں بنیا دی سوال یہ ہے کہ ان کی کس کمی کی بنا پر ان کا یہ حال ہو رہا ہے۔ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو آج مسلمانوں کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ بظاہر ان کے پاس دین اور دنیا دونوں ہمیشہ سے زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔
آج دنیا میں مسلمانوں کے ۵۶ با اختیار ممالک ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد ساری دنیا میں ایک ارب ہے۔ یہ تعداد ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان آج ہمیشہ سے زیادہ مسجدیں اور مدرسے ہیں۔ ۱۹۲۵ میں حج کا فریضہ ادا کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم (90,622) تھی ۔ ۱۹۹۰ میں جن مسلمانوں نے حج ادا کیا، ان کی تعداد پندرہ لاکھ (1,500,000(ہے۔ جب کہ اس سال ایرانی مسلمان حج کے لیے نہیں آئے تھے۔
قرآن اور حدیث اور دوسری اسلامی کتابیں آج اتنی زیادہ مقدار میں ہیں کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خدااور رسول کے نام پر آج جتنے جلسے اور سمینار اور کانفرنسیں ہورہی ہیں ان کی تعداد ساری انسانی تاریخ میں ہونے والے تمام جلسوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ آج مسلمان ایسے اسلامی اجتماعات منعقد کر رہے ہیں جن میں ۲۵ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمی بیک وقت جمع ہوتے ہیں ، جب کہ رسول اللہ کے آخری اجتماع (حجتہ الوداع) میں جمع ہونے والے مسلمانوں کی کل تعداد بمشکل سوالاکھ تھی ۔ آج اسلامی نظام قائم کرنے کے نام پر اتنے ہنگامے جاری ہیں کہ اگر تمام انبیاء کی مجموعی آوازیں اکھٹا کی جائیں تو ان کی آواز میں اس کے مقابلہ میں دب کر رہ جائیں گی ۔ آج مسلمانوں نے اتنے بڑے بڑے اکا بر پیدا کر رکھے ہیں جن میں سے کوئی ‘‘عہد آفریں شخصیت’’ کا حامل ہے اور کسی کے متعلق اس کے معتقدین یہ اعلان کر رہے ہیں کہ:
ہمارے حضرت والا کے فیض سے یارو تمام عالم اسلام جگمگا یا ہے
یہ تمام چیزیں مسلمانوں کے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود وہ ساری دنیا میں پست اور حقیر ہو رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان سب کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جو مسلمانوں کو عزت اور غلبہ کے مقام تک پہنچاتی ہے، اور وہی چیز آج ان کے پاس موجود نہیں۔
اگر آپ اسلام کی مطلوبہ چیزوں کی فہرست بنا کر اس معاملہ پر غور کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ موجودہ مسلمانوں کے یہاں اگر چہ تمام چیزیں موجود ہیں ، مگر ایک چیز ان کے درمیان سے مکمل طور پر غائب ہے ، اور وہ دعوت ہے ۔ بدقسمتی سے جو چیز حذف ہوئی وہی اس معاملہ میں اصل اہمیت رکھتی تھی :
ہماں ورق کہ سیہ گشتہ مدعا ایں جا است
آج مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر دعوت ہی ایک ایسا کام ہے جس کا ان کے یہاں سرے سے کوئی وجود نہیں۔ اس معاملہ میں ان کی دوری کا یہ حال ہے کہ وہ دوسرے دوسرے کام کرتے ہیں اور اس پر دعوت کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ کوئی مسلمانوں کی اصلاح کے کام کو دعوت بتا رہا ہے کوئی اپنے قومی فخر کے اظہار کو دعوت کا نام دیے ہوئے ہے۔ کوئی دوسری قوموں سے قومی اور مادی جنگ لڑتا ہے اور اس کو دعوت کامل قرار دیتا ہے۔ کوئی شاعری اور خطابت کے مظاہرے کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ دعوت کا کام انجام دے رہا ہے۔ وغیرہ دعوت در اصل دعوت الی اللہ کا نام ہے۔ اس سے مراد وہ عمل ہے جس کو قرآن میں انذار و تبشیر کہا گیا ہے۔ یعنی اقوام عالم کو خدا کی مرضی سے آگاہ کرنا۔ انہیں آنے والے دن سے با خبر کرنا۔ انہیں خداکے اُس منصوبے کی اطلاع دینا جو خدا نے زندگی اور موت کے بارے میں مقرر فرمایا ہے ۔ ایک لفظ میں یہ کہ خدا کے بندوں کو جہنم کے راستہ سے ہٹا کر جنت کے راستہ پر لگانے کی کوشش کا نام دعوت ہے۔ دعوت کا یہ عمل ہمیشہ محبت کی زمین پر اگتا ہے۔ دعوت کا کام وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو انسانوں کے انجام آخرت کو سوچ کو تڑپ اٹھے ہوں اور انھیں خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے دیوانہ وارنکل پڑیں۔ مدعو کو محبوب بنائے بغیر کبھی دعوت کا کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو دوسری قوموں کی طرف سے ذلت اور ہزیمت کا تجربہ ہوا۔ اس تجربہ نے مسلمانوں کے دلوں میں دوسری قوموں کے لیے نفرت پیدا کر دی۔ وہ دوسری قوموں کو دشمن یا حریف کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے لیے محبت کا موضوع نہ رہیں، وہ صرف نفرت کا موضوع بن کر رہ گئیں ۔ یہی وہ اصل سبب ہے جس نے مسلمانوں سے داعیانہ جذبے کو چھین لیا۔ اور ان کے درمیان دعوتی عمل کو زندہ ہونے نہیں دیا ۔
دین رحمت کی پیغام رسانی کے لیے داعی کے اندر محبت و شفقت کا جذبہ ہونالازمی طور پر ضروری ہے۔ کوئی شخص ایسے لوگوں کے اوپر دعوت کے فرائض انجام نہیں دے سکتا جو اس کی نظر میں مبغوض بنے ہوئے ہوں۔ مسلمانوں نے دوسری قوموں سے نفرت کر کے اپنے اندر داعیانہ صلاحیت کھو دی ہے۔ موجودہ حالت میں ان کا دعوت کا نام لینا صرف ایک مذاق ہے، وہ کسی سنجیدہ ارادے کا اظہار نہیں۔
دعوت الی اللہ کی لازمی شرط صبر ہے مسلمانوں کو داعی بننے کے لیے سب سے پہلے صابر بننا پڑے گا۔دوسری قوموں سے خواہ انھیں کتنی زیادہ ناخوشگواری کا تجربہ ہو ۔ دوسری قوموں کی طرف سے انھیں خواہ کتنا ہی زیادہ مادی نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری قوموں کی جانب سے خواہ انھیں کتنا ہی زیادہ اشتعال انگیزی کا تجربہ ہو، ان سب کے باوجود انھیں دوسری قوموں کا خیر خواہ بنے رہنا ہے ۔ انھیں یک طرفہ طور پر تمام نا خوش گوار باتوں کو صبر کے خانے میں ڈال دینا ہے۔
یک طرفہ صبر، دعوت کے عمل کو انجام دینے کی لازمی شرط ہے۔ اس یک طرفہ صبر کے بغیر مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دوسری قوموں پر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کر سکیں۔ اور جب تک مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داری کو انجام نہ دیں ، ان کے حالات کبھی بدلنے والے نہیں۔ کوئی دوسرا عمل خواہ کتنی ہی زیادہ بڑی مقدار میں کیا جائے ، وہ ان کے احوال کو بدلنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
دعوت الی اللہ کی ذمہ داری اتنی سنگین ہے کہ اس میں معمولی کو تاہی بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں ناقابل قبول ہے ، کجا کہ اس کو مستقل طور پر ترک کر دیا جائے۔
یہ معاملہ سید نا یونس علیہ السلام کی مثال سے بخوبی طور پر واضح ہے۔ حضرت یونس قدیم عراق (نینوا) میں دعوت ِتوحید کے لیے بھیجے گئے ۔ انھوں نے اہل نینوا کو دعوت دی۔مگر ابھی دعوت کا عمل اپنی تکمیل (ا تمام حجت) تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ قوم کو چھوڑ کر باہر چلے گئے اللہ تعالی کو ان کی یہ روش پسند نہیں آئی۔ ان کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا گیا۔ قرآن کا بیان ہے کہ اگر وہ اپنی کوتاہی کا اقرار کر کے دوبارہ اپنی مخاطب قوم کی طرف جانے کے لیے تیار نہ ہوتے تو وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں پڑے رہتے (الصافات: ۱۴۴)
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے ۔ انھوں نے اپنی مدعو اقوام پر دعوت کا عمل سرے سے انجام نہیں دیا ۔ بلکہ اپنی نفرت بڑھانے والی سرگرمیوں کے ذریعہ اس کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اس غفلت کے نتیجے میں وہ خدا کی گرفت میں آگئے ہیں ۔ وہ آج خدا کے عتاب کی زد میں ہیں۔ وہ تمام زیادتیاں جن کا تجربہ انہیں دوسری قوموں کی طرف سے ہو رہا ہے اور جس کو وہ دوسری قوموں سے منسوب کر کے ان کے خلاف احتجاج یا ٹکر اؤ کر رہے ہیں ، وہ سب یقینی طور پر خدا کی طرف سے ہیں۔ یہ خدا کی تنبیہ ہے نہ کہ دوسری قوموں کا ظلم یا سازش۔
معاملہ کی اس نوعیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے ۔ کیوں کہ ایک معاملہ جو خدا کی طرف سے ہو، اس کو آپ انسان کی طرف سے سمجھ لیں تو آپ اس سے خلاصی کی تد بیر کو بھی صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ اپنی آخری صورت میں عین وہی ہے جو اپنی ابتدائی صورت میں بلا تشبیہ حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تھا۔ آج دنیا بھر کے مسلمان ‘‘مسائل کے پیٹ’’ میں ہیں۔ ان کو مسائل کی عظیم مچھلی نے نگل رکھا ہے۔ ان کوفَٱلۡتَقَمَهُ ٱلۡحُوتُ کا تجربہ کرایا جارہا ہے۔
مسلمان اس پیٹ سے ہرگز نکل نہیں سکتے جب تک وہ دعوت الی اللہ کے معاملہ میں اپنی کو تاہی کی تلافی نہ کریں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اس خدائی کام کے لیے اٹھیں اور اس کو اس کے تمام آداب و شرائط کے ساتھ انجام دیں۔ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک اقوام عالم پرخدا کی حجت پوری نہ ہو جائے۔
اگر مسلمانوں نے اپنی اس کو تا ہی کی تلافی کی تو وہ قیامت تک مسائل کے بطن (پیٹ) میں پڑے رہیں گے۔ کوئی دوسرا عمل، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی اچھا ہو اور کتنی ہی زیادہ بڑی مقدار میں کیا جائے ، انھیں اس گرفتاری سے نجات دینے والا نہیں۔ جب گرفتاری کے اس معاملہ کا سبب دعوتی کوتا ہی ہے تو دوسرا عمل کیوں کر انھیں اس گرفتاری سے نکالنے والا بن سکتا ہے۔
دوڑنے والوں کو خدا کی طرف دوڑنا چاہیے ۔ اگر وہ انسانوں کی طرف دوڑتے رہے تو وہ انسانوں کو بھی کھو دیں گے ، اور خدا کو تو وہ پہلے ہی سے کھوئے ہوئے ہیں۔