محتسبِ اقوام یا خیر خواہِ اقوام
ایک مسلم رہنما نے لکھا ہے کہ مسلمان اپنے عقیدہ کی رو سے محتسب اقوام ہیں۔ ایک اور رہنما نے لکھا ہے کہ مسلمان تمام قوموں کے اوپر خدائی فوجدار ہیں ۔ تقریبا ً ایک صدی سے یہی بات ایک یا دوسرے لفظ میں کہی جارہی ہے ۔ شاعر اور خطیب اور انشا پر داز قسم کے لیڈر اس بات کو نہایت جذباتی انداز میں بیان کرتے رہے ہیں۔ حتی کہ اب موجودہ مسلم نسل کا یہی عام ذہن بن گیا ہے ۔ خاص طور پرمسلمانوں کا نوجوان طبقہ ہر جگہ اسی احساس حاکمیت سے سرشار نظر آتا ہے ۔ اور یہی وہ خاص نفسیات ہے جس کے تحت مسلم نوجوان ساری دنیا میں ان سرگرمیوں میں مشغول ہیں جن کو وہ بطور خود انقلابی سرگرمی کہتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے جس کو توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کا نام دیا ہے ۔
مگر مسلمان کی شخصیت کے بارےمیں یہ حاکمانہ نظریہ سراسر لغو ہے۔ اس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان کی حیثیت اس دنیا میں محتسب اقوام کی نہیں ہے ، بلکہ خیر خواہ ِاقوام کی ہے۔ مسلمان کو دعوت کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ مسلمان دوسری قوموں کے سامنے خدا کے دین کا داعی ہے۔ داعی روحانی ڈاکٹر ہوتا ہے ۔ جس طرح ایک سچا ڈاکٹر خیر خواہی کی حد تک اپنے مریض کا خدمت گار ہوتا ہے۔ اسی طرح سچا داعی وہ ہے جو خیر خواہی کی حد تک لوگوں کی ہدایت کا حریص بن جائے ۔
داعی کے لیے قرآن میں ناصح (خیر خواہ ) اور امین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ داعی بیک وقت دو شدید احساس کے درمیان ہوتا ہے ۔ ایک طرف وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے دین کا امانت دار ہے۔ یہ احساس اس کے اندر آخری حد تک ذمہ داری کا جذبہ ابھار دیتا ہے ۔ وہ اس ڈر سے کا نپتا رہتا ہے کہ امانت کی ادائگی میں اگر ذرا بھی کوتاہی ہوئی تو وہ خدا کے یہاں پکڑا جائے گا۔ دوسری طرف بندوں کے ساتھ خیر خواہی کا احساس اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر تلخی کو اپنی ذات پر سہتے ہوئے مدعو کو خدا کی رحمتوں کے سایہ میں لانے کی کوشش کرے ۔
اس طرح جو انسان بنے وہ خیر خواہ اقوام ہوگا نہ کہ محتسب اقوام ۔ وہ لوگوں کی نجات کے لیے تڑپے گا نہ کہ لوگوں کے اوپر حاکمانہ اختیار استعمال کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے ۔