جذبۂ عبودیت
۲ اگست ۱۹۹۰ کو عراق کے حکمران صدام حسین نے اپنی ایک لاکھ فوج کویت میں داخل کر دی۔ انھوں نے کویت پر قبضہ کر کے اعلان کر دیا کہ کویت آج سے عراق کا حصہ ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے دوسری مغربی طاقتوں کو ساتھ لے کر وہ فوجی کارروائی کی جس کو صحرائی ڈھال (Operation Desert Shield) کہا جاتا ہے۔ بہت بڑی طاقت نے عراق اور کویت کو گھیر لیا اور اس کی مکمل ناکہ بندی کر دی۔ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ عراق غیر مشروط طور پر کویت کو خالی کرے اور عراق کے حکمراں صدام حسین کا کہنا تھا کہ اب وہ پیچھے جانے والے نہیں ۔
اب یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ کسی بھی وقت ہولناک جنگ چھڑ سکتی ہے ، عراق اور کویت میں جو بیرونی لوگ کمائی کے لیے گئے تھے، وہ اپنا سب کچھ وہاں چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔ ہندستان کے ۱۷۲۰۰۰ آدمی کویت میں تھے اور ۹۰۰۰ آدمی عراق میں کام کر رہے تھے ۔ ہندستان کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے عراق اور کویت کا دورہ کیا تا کہ ہندوستانیوں کو وہاں سے واپس لانے کا بندوبست کر سکیں۔
۲۲ اگست ۱۹۹۰ کو مسٹر گجرال کا ہوائی جہاز دہلی واپس آیا تو کویت کے ۲۰۰ عورتیں اور بچے اور مرد بھی ان کے ساتھ تھے۔ ٹائمس آف انڈیا ( ۲۳ اگست ۱۹۹۰) میں ان کی واپسی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ تھا کہ جہاز جب دہلی ائیر پورٹ پر اترا تو واپس آنے والے ہندستانیوں نے بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگائے ۔ ان میں سے کچھ نے زمین پر گر کر اسے چوما:
As the plane touched down at the airport, the evacuees raised slogans of "Bharat mata ki Jai". Some of them kissed the soil (p. 14).
بھارت کی زمین کو چومنا گویا اپنے اس احساس کا اظہار تھا کہ میں اپنے پناہ دہندہ کی پناہ میں آگیا۔ یہی کسی ہستی کو معبود بنانا ہے۔ یہ معبود صرف خدا ہے۔ کیونکہ وہی دینے والا بھی ہے اور وہی چھیننے والا بھی۔ مگر انسان نہ دکھائی دینے والے خدا پر یقین نہیں کر پاتا۔ اس لیے وہ دکھائی دینے والی چیزوں کو اپنا خدا فرض کر لیتا ہے۔ عبودیت کا جذبہ فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہے۔ مگر اپنی بے شعوری کی بنا پر وہ ایسا کرتا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر وہ غیر خدا کو اپنے جذبہ ٔعبودیت کا مرکز بنا لیتا ہے۔