پیشگی جانچ
قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات کے ذیل میں بتایا گیا ہے کہ حضرت اسماعیل جب اپنے باپ حضرت ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم نے اسماعیل سے کہا کہ اے میرے بیٹے ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں ۔ پس تم سوچ لو کہ تمہاری رائے کیا ہے ۔ اسماعیل نے کہا کہ اے میرے باپ ، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس کو کر ڈالیے ، ان شاء اللہ آپ مجھ کو صبر کر نے والوں میں پائیں گے (الصافات: ۱۰۲)
اس آیت میں ‘‘صبر’’ کا لفظ کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنے بیٹے اسماعیل کو لٹایا اور اپنے خواب کے مطابق ، ان کی گردن پر چھری چلائی تو اس فعل سے اللہ کا مقصود اسماعیل کو ذبح کرنا نہ تھا بلکہ ان کے صبر کا امتحان لینا تھا۔ کیونکہ خدائی منصوبے کے مطابق، ان کو عرب کے بے آب و گیاہ صحرا میں آباد ہونا تھا۔ وہاں مستقل مزاجی کے ساتھ آباد ہونے کے لیے صبر کی غیر معمولی صفت درکار تھی ، حضرت اسماعیل نے پیشگی آزمائش کے مطابق یہ ثابت کر دیا کہ یہ ضروری صفت ان کے اندر مکمل طور پر موجود ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت ابراہیم انہیں صحرائے عرب میں چھوڑ کر چلے گئے۔
اس واقعہ سے پیغمبرانہ طریق ِکار کا ایک اہم نکتہ معلوم ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب کسی شخص یا کسی گروہ کو کسی بڑی مہم میں لگانا ہو تو سب سے پہلے مناسب امتحان کے ذریعہ یہ معلوم کیا جائے کہ آیا اس شخص یا اس گروہ میں وہ مطلوبہ صفت اطمینان بخش مقدار میں موجود ہے یا نہیں جو مہم میں کامیابی کے ساتھ اپنا کر دار ادا کر نے کے لیے ضروری ہوگی۔
بنی اسرائیل کے رہنما نے یہی اصول اپنی قوم کے ساتھ اختیار کیا تھا جب انھوں نے دریا پار کرتے ہوئے اپنی فوج کو حکم دیا کہ کوئی شخص اس سے پانی نہ پیے (البقرہ: ۲۴۹) موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کا ہر اقدام ناکامی سے دو چار ہوا ہے ۔ اور اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی اہلیت کے بارے میں کبھی کوئی جانچ نہیں کی۔ انھوں نے پر جوش تقریروں کے ذریعہ قوم کو اکسایا اور اس کے بعد اس کو صحراؤں اور سمندروں میں دوڑا دیا۔