آسان طریقہ

پروفیسر رشید احمد صدیقی (۱۹۷۷ - ۱۸۹۲) جون پور میں پیدا ہوئے ۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر تھے۔ ان کی شہرت زیادہ تر مزاح نگار کی حیثیت سے ہوئی۔ مزاحیہ نگاری میں وہ اردو کے ممتاز لکھنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

 موصوف کے ایک رفیق آل احمد سرور نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ‘‘پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک دفعہ اپنا ایک مضمون مجھ سے لے کر کہیں اور شائع کر دیا ۔ میں اسے ماہنامہ اردو ادب میں دینا چاہتا تھا۔ میں نے اس پر احتجاج کیا تو انھوں نے نوٹس نہ لیا۔ پھر میں نے فریاد کی تو محرم کا مہینہ اسی زمانے میں گزر چکا تھا ۔ رشید صاحب نے لکھا کہ ––––– محرم ختم ہوگیا ، ماتم موقوف کیجیے ’’۔ (قومی آواز ۲۲ اپریل  ۱۹۹۰)

جواب کا یہ طریقہ بعض اوقات نہایت مفید ہوتا ہے ۔ علمی تبادلۂ خیال میں منطقی طریقہ ہی مناسب ہے۔ علمی گفتگو میں طنز و مزاح کے الفاظ بولنا ایک معیوب فعل سمجھا جاتا ہے ، مگر دوسرے بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں مذکورہ قسم کا ہلکا انداز زیادہ کار آمد ہے۔

 خاص طور پر جب دو شخص یا دوگروہ میں تلخی کی صورت پیدا ہو جائے تو ایسے موقع پر سنجیدہ مزاح کا طریقہ ہی زیادہ مناسب ہے۔ تلخی اور کشیدگی کے وقت آدمی اس حالت میں نہیں ہوتا کہ وہ دلائل کی زبان کو سمجھے ۔ ایسے وقت میں بہترین صورت یہی ہے کہ کوئی پر لطف جملہ بول کر ذہن کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے ۔

یہ اصول گھر یلو سطح پر بھی کار آمد ہے، اور جماعتی سطح پر بھی اور دو گروہوں کے باہمی نزاعات کے موقع پر بھی ۔ آدمی اگر اپنے ہوش و حواس نہ کھوئے، اور جھنجھلاہٹ سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے تو وہ ہر ایسے موقع پر کوئی دل چسپ بات پالے گا جس سے وہ لوگوں کی برہمی کو ٹھنڈا کر سکے۔

مزاح کو اگر عادت کے طور پر اختیار کیا جائے تو وہ ایک معیوب بات ہے۔ لیکن مزاح کو اگر تدبیر کے طور پر اختیار کیا جائے تو وہ ایک پسندیدہ چیز بن جائے گی۔ کیوں کہ بعض اوقات مزاحیہ کلام وہ کر دیتا ہے جو سنجیدہ کلام نہیں کر سکتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom