زندگی کے اُس پار
آدمی بظاہر ایک کامل وجود ہے۔ مگر حقیقت میں وہ صرف ایک ناقص وجود ہے۔ انسان کے پاس آنکھ ہے، مگر وہ خارجی روشنی کے بغیر دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس کان ہے، مگر خارجی ہوا کے بغیر وہ سن نہیں سکتا۔ انسان کے پاس چلنے کے لیے پاؤں ہے، مگر زمین میں متوازن قوتِ کشش نہ ہو تو وہ چل نہیں سکتا۔ انسان کے پاس کھانے کے لیے منھ ہے، لیکن خارج میں غذا کا سامان نہ ہو تو وہ کھانے کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔
اب ایک ایسے وقت کا تصور کیجیے، جب کہ آپ پوری طرح اپنے اِسی وجود کے ساتھ زندہ حالت میں ہوں، لیکن وہاں آپ کی ضرورت کے تمام خارجی سامان آپ سے چھن چکے ہوں۔ آپ کے پاس آنکھ ہو، مگر وہاں دیکھنے کے لیے خارجی روشنی موجود نہ ہو۔ آپ کے پاس منھ ہو، لیکن کھانے کی چیزیں وہاں سے غائب ہوچکی ہوں۔ آپ کے پاس پاؤں ہو، مگر وہاں متوازن کشش والی زمین آپ کے پاؤں کے نیچے موجود نہ ہو، مزید یہ کہ وہاں آپ اکیلے ہوگئے ہوں۔ آپ کے تمام اپنے لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہوں۔
یہ کوئی فرضی بات نہیں۔ یہی صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے ساتھ موت کے بعد پیش آنے والی ہے، اور موت ہر عورت اور مرد پر لازماً آنے والی ہے۔ کوئی بھی شخص جو آج زندہ ہے، وہ ضرور ایک دن مرے گا۔ اور پھر موت کے بعد وہ اپنے آپ کو جس دنیا میں پائے گا، وہ وہی دنیا ہوگی جس کا بیان اوپر کیا گیا۔
یہ آنے والا دن ہر ایک کی طرف دوڑا چلا آرہا ہے۔ ہر عورت اور مرد کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ اس آنے والے دن کو جانے اوراس کے لیے تیاری کرے۔ وہ دن جب آئے گا، تو وہ پوائنٹ آف نو رٹرن (point of no return)کی سطح پر آئے گا۔ اس کے بعد آدمی کو صرف بھگتنا ہوگا ، نہ کہ پیچھے لوٹ کر دوبارہ تیاری کرنا۔