اپنی نمازِ جنازہ

دہلی میں ایک مسلمان کی موت ہوئی۔ نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعدان کو ایک مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے بتایا کہ وہ اس نماز میں شریک تھے۔ نماز شروع ہونے والی تھی تو ان کے پاس کھڑے ہوئے ایک مسلمان نے پوچھا— فرض کی نیت کروں یا سنت کی نیت کروں۔ انھوں نے کہا کہ خود اپنی نمازِ جنازہ کی نیت کرو۔ اُس آدمی کو حیرانی ہوئی۔ بعد کو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ کسی کے مرنے پر جنازہ کی نماز پڑھنا محض ایک رسم نہیں، وہ ایک سنگین حقیقت کی یاد دہانی ہے،یہ حقیقت کہ مرنے والے کی جس طرح موت ہوئی ہے، اُسی طرح میری موت بھی ہونے والی ہے۔ با جماعت نمازِ جنازہ دراصل اِسی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سچی نماز جنازہ اُسی انسان کی ہے جو دوسرے کی موت میں اپنی موت کو یاد کرے۔ وہ سوچے کہ آج جو کچھ مرنے والے کے ساتھ پیش آیا ہے، وہی خود میرے ساتھ پیش آنے والا ہے۔ موت کو دیکھ کر جو آدمی اس طرح سوچے، وہ جب جنازہ کی نماز کے ليےکھڑا ہوگا تو اس کا احساس یہ ہوگا کہ میں خود اپنے جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہوں۔ جو کچھ دوسرے کے ساتھ آج پیش آیا ہے، وہی میرے ساتھ کل پیش آنے والا ہے۔

موت کسی ایک انسان کا معاملہ نہیں، موت کا واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ لازمی طورپر پیش آنے والا ہے۔ مزید یہ کہ موت کسی سے پوچھ کر نہیں آتی، موت اچانک آجاتی ہے۔ اور موت جب آجاتی ہے تو کوئی بھی انسان اس کو واپس کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، ایک انسان کے ليےبھی اور دوسرے انسان کے لیے بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنی موت کو یاد کرے، جو شخص اتنا زیادہ غافل ہو کہ دوسرے کی موت کو دیکھ کر بھی اس کو اپنی موت یاد نہ آئے، وہ گویا کہ بے حس پتھر ہے۔ وہ بظاہر انسان ہے، لیکن وہ انسانی صفات سے اُسی طرح خالی ہے جس طرح پتھر کا کوئی مجسمہ انسانی صفات سے خالی ہوتا ہے۔ موت کو یاد کرنا حساس (sensitive)انسان کی صفت ہے، اور موت کو یاد نہ کرنا بے حس (insensitive) انسان کی صفت ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom