بریک اِن ہسٹری
گورنمنٹ سروس کے قاعدوں میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بغیر رخصت (without an approved leave) دفتر میں حاضر نہ ہو، تو گورنمنٹ کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اس کو شکستِ ملازمت (break in service) کا کیس قرار دے دے۔ شکستِ ملازمت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سینیرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی۔ وہ حقوق ملازمت کے اعتبار سے واپس ہو کر اپنے پہلے دن کے حال پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کا تقرر ہوا تھا، اس کے لیے ملازمت کے پچھلے ایام کے اعتبار سے پروموشن (promotion) کا حق باقی نہ رہے گا:
A break in service is any separation from employment status.
یہ اصول زیادہ بڑے پیمانے پر ہر عورت اور مرد پر منطبق ہوتا ہے۔ اِس دوسرے عمومی اصول کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے، یعنی تاریخ کا ختم ہوجانا۔ کسی آدمی نے اپنے عمل سے اپنی جو تاریخ بنائی ہے، اس کا اچانک مٹ جانا اور انسان کا اپنے بے تاریخ دَور کی طرف لوٹ جانا۔
اِس دنیا میں ہر آدمی اپنی بنائی ہوئی تاریخ کی بنا پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک انسان یہاں پیدا ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے بڑا ہوتا ہے۔ اس کو مختلف قسم کے مواقع ملتے ہیں، جن کو استعمال کرکے وہ اپنی ایک تاریخ بناتا ہے۔ گھر اور جائداد اور خاندان اور حلقہ اور شہرت اور اقتدار اور مال اور اسباب، وغیرہ۔ اِس قسم کی چیزیں اس کے گِرد اکھٹا ہوجاتی ہیں۔
اِس طرح اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک تاریخ ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کا تشخّص قائم ہوتاہے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو جانتا ہے اور اس کے ذریعے دوسرے لوگ اس کو پہچانتے ہیں۔ یہ معاملہ ہر عورت اور مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر ایک مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنی ایک تاریخ بناتا ہے جس کے اوپر وہ کھڑا ہوتا ہے۔
لیکن کوئی بھی شخص لمبی مدت تک اپنی تاریخ میں جینے کا موقع نہیںپاتا۔ سو سال کے اندرہی اچانک وہ لمحہ آجاتا ہے جس کو موت کہتے ہیں۔ موت ایک ناقابلِ واپسی فیصلے کے طورپر ہر شخص کے اوپر آتی ہے اور اچانک قبل از موت مرحلۂ حیات سے جدا کرکے اُس کو بعد از موت مرحلۂ حیات میں پہنچا دیتی ہے۔
موت کو اِس اعتبار سے شکستِ تاریخ (break in history) کا معاملہ کہاجاسکتا ہے۔ شکستِ تاریخ کا یہ واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ہر عورت اور مرد کا یہ معاملہ ہے کہ وہ اپنی ساری طاقت خرچ کرکے اپنی امیدوں اور اپنی تمناؤں کی ایک دنیا بناتے ہیں۔ ہر انسان اپنی بنائی ہوئی اِس دنیا میں جی رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کے لیے موت کا وقت آجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِس بنائی ہوئی دنیا کو چھوڑ کر اچانک ایک اور دنیا میں پہنچ جائے، جس کے لیے اُس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اُس کے پیچھے اس کی بنائی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا، اور اس کے آگے ایک ابدی صحرا ہوتا ہے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا۔ یافت کے احساس میں جینے والا انسان اچانک کامل محرومی کے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔
قبل ازموت کا مرحلۂ حیات ہر انسان کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے، اس کے بعد کسی کودوسرا موقع ملنے والا نہیں۔ اِس پہلے موقع کو جس شخص نے صرف دُنیوی سازوسامان کی فراہمی میں لگایا، وہ موت کے بعدکے مرحلۂ حیات میں کامل محرومی میں جینے پر مجبور ہوگا۔ کیوں کہ موت اس کی پچھلی تاریخ کواُس سے جدا کردے گی، اور موت کے بعد دوبارہ نئی تاریخ بنانے کا موقع اُس سے ہمیشہ کے لیے چھن چکا ہوگا۔ کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔