موت کا تصور
موت (death) کے لفظ کو اگر آپ ڈکشنری میں دیکھیں تو اس میں موت کا مطلب یہ لکھا ہوا ہوگا کہ — زندگی کا ابدی خاتمہ:
Permanent cessation of life
موت کی یہ لغوی تعریف، موت کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آدمی مکمل انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، لیکن تھوڑی مدت تک زندہ رہ کر ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کی تمام آرزوئیں(desires)اور اس کی تمام صلاحيتیں اِس طرح مٹ جائیں کہ دوبارہ اُن کا وجود میں آنا ممکن نہ رہے۔
اسلام اِس کے مقابلے میں، زندگی کا مثبت تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق، موت زندگی کا خاتمہ نہیں، موت کا مطلب انسان کے لیے اس کے دوسرے دورِ حیات کا آغاز ہے:
Death is not the end of life. Death marks the beginning of the second phase of human life.
اسلام کے مطابق، انسان کو ابدی مخلوق (eternal being) کے طور پر پیدا کیا گیا، پھر اس کے عرصۂ حیات (life span) کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا— قبل از موت حصہ، اور بعد از موت حصہ۔ قبل از موت عرصۂ حیات تیاری کی جگہ ہے اور بعد از موت عرصۂ حیات تیاری کے مطابق، اپنا مستقل انجام پانے کی جگہ۔
اِس تخلیقی پلان کے مطابق، آدمی کو چاہیے کہ وہ موت سے پہلے کی زندگی کو تیاری کا دور (preparatory period) سمجھے اور اس کو کامل طورپر تیاری میں گزار ے۔ کیوں کہ موت کے بعد زندگی کا جو دور آدمی کے سامنے آئے گا، اُس میں عمل کرنا نہ ہوگا، بلکہ کیے ہوئے عمل کا انجام پانا ہوگا۔
موت کا واقعہ دراصل، زندگی کا پیغام ہے۔ موت کا پیغام یہ ہے کہ — جو کرنا ہے، اُس کو آج کے دن کرلو۔ کیوں کہ کل کے دن کرنے کا وقت باقی نہیں رہے گا۔